تراویح کے چند مسائل
کل کی نشست میں بیان ہوا تھا کہ تراویح رمضان المبارک کی خصوصی عبادات میں سے ہے اور بیس[٢٠] رکعات تروایح ہر مرد و عورت کے لئے سنت مؤکدہ ہیں ۔آج کی نشست میں تروایح کے چند مسائل کا ذکر کیا جاتا ہے ۔
عشاء کی نماز کے بعد وتر سے پہلے بیس [٢٠]رکعت باجماعت پڑھنا اور تراویح میں قرآن مجید ختم کرنا مسنون ہے ۔تراویح کے بعد وتر کی نماز بھی باجماعت پڑھی جاتی ہے۔
تراویح میں قرآن مجید ختم ہونے کے بعد بھی آخر مہینہ تک تراویح پڑھنی چاہئے کیونکہ ایک مرتبہ قرآن مجید کا ختم کرنا ایک مستقل سنت ہے اور پورا مہینہ تراویح پڑھنا علیحدہ سنت ہے۔
بعض لوگ تروایح مسجد کے قریب کسی گھر میں پڑھتے ہیں ۔ان کے لئے بہتر یہ ہے کہ عشاء کی فرض نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کریں ،پھر تراویح کے لئے گھر میں چلے جائیں ۔
تراویح کی چار رکعت کے بعدتھوڑا بیٹھنا،یہ مستحب ہے اور نمازیوں کو اختیار ہے چاہیں تو اس بیٹھنے کے دوران تسبیح کرتے رہیں، لا الہ الا اللّٰہ کا ورد کرتے رہیں یا محض خاموش بیٹھے رہیں۔قدیم زمانہ میں مکہ مکرمہ والے اس دوران سات چکر لگا لیتے تھے اور مدینہ والے اس کے بدلے چار[٤] رکعت نفل پڑھ لیتے تھے۔یوں اہل مدینہ کی نماز تروایح اکتالیس رکعات ہوجاتی تھی ۔(عشاء کی نماز کے بعد کی دو سنتیں، بیس رکعات تروایح ،سولہ رکعات یہ نوافل اور تین وتر)
اورچار رکعت کے بعد کچھ دیر انتظار و استراحت کرنا یہ صحابہ کرام کے عمل سے بھی ثابت ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اس وقفہ میں کوئی بھی تسبیح پڑھی جا سکتی ہے یا خاموش بھی بیٹھا جا سکتا ہے۔ آج کل جو تسبیح کی جاتی ہے وہ بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
اگر کسی کو عشاء کی جماعت نہ ملے تو وہ پہلے تنہا عشاء کے فرض اور سنت مؤکدہ پڑھ لے اور پھر تراویح کی جماعت میں شریک ہوجائے اور وتر بھی باجماعت پڑھے ، تراویح کی جو رکعات رہ گئی ہوں وہ وتر پڑھ لینے کے بعد پڑھے۔
تراویح کی نماز کی امامت کے بھی وہی احکام ہیں جو عام نمازوں کے ہیں ـ،یعنی نابالغ کے پیچھے نماز تروایح صحیح نہیں۔اسی طرح جو شخص داڑھی کاٹتا ہو اور ایک مشت سے کم رکھتا ہو اس کے پیچھے بھی تراویح کی نماز جائز نہیں۔
اگر کوئی شخص کمزور ہے ،بیمار ہے، کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتا تو بیٹھ کر تراویح پڑھ سکتا ہے ۔بعض لوگ رکعت کے شروع میں بیٹھے رہتے ہیں اور جب امام رکوع میں جانے لگتا ہے تو بھاگ کر شریک ہوجاتے ہیں ،ایسا کرنا مکروہ ہے ۔
وتر کے بعد نفل پڑھنا بھی جائز ہیں۔بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ وتر رات کی آخری نماز ہونی چاہئے اور اس کے بعد کوئی نفل وغیرہ جائز نہیں ،ایسی بات نہیں ہے ۔ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے وتر کے بعد بھی نفل پڑھنا ثابت ہیں ۔لہٰذا کوشش کریں کہ صبح سحری کے وقت کچھ نہ کچھ نفل نماز ضرور پڑھ لیں تاکہ رمضان المبارک کا پورا مہینہ تہجد کی نماز پڑھنے کا اہتمام ہوجائے ۔اللّٰہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ثم آمین ۔
