درس 16

اذان کی تعظیم اور مسائل

اذان شعائر اللّٰہ میں سے ہے ،یعنی ایمان اوردین کی علامات میں سے ہے ۔شعائر اللّٰہ کی تعظیم ایمان کا تقاضا اور تقویٰ کی نشانی ہے ۔ اذان کی تعظیم کرنے پر مغفرت اور نجات کے بہت سے واقعات منقول ہیں ۔مثلاً ایک خاتون تھی اذان کی آواز سنتے وقت اگر سر ننگا ہوتا فوراً سر ڈھانپ لیتی۔ایک خاتون کوکام کاج کے وقت اذان کی آواز آتی تو کام کاج چھوڑ کرمتوجہ ہوکر اذان سنتی اور جواب دیتی تو ان کی مغفرت کے فیصلے ہوگئے ۔کسی کی قبر کھودی گئی تو اس کی قبر میں پھول رکھے ہوئے ہیں،بتایا گیا کہ یہ اذان دینے والے ہیں وغیرہ ۔بہرحال اذان کی تعظیم پر اجر وثواب اور نجات کی امید ہے۔

اذان کی تعظیم میں اذان کے کلمات کا جواب دینا بھی ہے ۔جس کی ترتیب یہ ہے کہ حدیث شریف میں ہے کہ جیسے مؤذن کہے تم بھی ویسا ہی کہو ،البتہ حیَّ عَلَی الصَّلوٰۃ، حیَّ عَلَی الفَلاَح کے جواب میں لاَحَولَ وَلاَقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ کہیں ۔اقامت کا جواب دینے میں بھی یہی ترتیب ہے جو اذان میں ہے ۔یعنی وہی کلمات کہے جائیں جو اذان کے جواب میں کہے جاتے ہیں ۔قَدْ قَامَتِ الصَلوٰ ۃُ کے جواب میں اَقَامَھَا اللہُ وَاَدَامَھَا کہا جائے ۔

زبان سے اذان کا جواب دینا تواکثر علماء کے ہاں مستحب ہے ۔لیکن اپنے عمل سے اذان کا جواب دینا یعنی”حیَّ علی الصلوٰۃ”کی آواز سن کر نماز کے لئے مسجد جانا یہ عمل واجب ہے ۔اذان ہونے کے بعد کوئی شخص سستی وغفلت کرے اورگھر میں نماز پڑھ لے،اس پر سخت وعید ہے ۔ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی امت پر کس قدر شفیق ومہربان ہیں ، مگر ایک بار فرمایا: میرا جی چاہتا ہے کہ جب نماز کا وقت ہوجائے ،تو کسی سے کہوں کہ جماعت کرادے اور میں خود جاکر ان لوگوں کے گھروں کو جلا دوں جو باجماعت نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں نہیں آتے ۔رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ اذان کی آواز آئی اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم گھر میں ہوتے ہوئے نماز کے لئے مسجد تشریف نہیں لائے اورفرض نماز گھر میں ادا فرمالی ۔ہاں مرض الوفات میں بیماری اور عذر کی وجہ سے ،کہ چلنا پھرنا بھی ممکن نہ رہاتو کچھ فرض نمازیں گھر میں ادا فرمائیں ۔

عامر بن عبد اللّٰہ بن زبیر رحمۃ اللّٰہ علیہ کی موت کا وقت تھا۔زندگی کے آخری لمحات تھے ۔اس حالت میں مغرب کی اذان کان میں پڑی ۔کہنے لگے میراہاتھ پکڑو اور مجھے مسجد لے جاؤ۔گھر والوں نے کہا :آپ بیمار ہیں ،معذور ہیں ۔فرمایا : سُبْحَانَ اللّٰہ أَسْمَعُ دَاعِیَ اللّٰہ فَلا أُجِیْبُہ۔سبحان اللّٰہ ! میں اذان کی آواز سنوں اور مسجد میں نہ جاؤں ،یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔چنانچہ گھر والوں نے پکڑ کر مسجد میں لایا ۔جماعت میں شریک ہوگئے ۔ایک رکعت پڑھی تھی کہ نماز کی حالت میں روح پرواز کرگئی۔

اسود بن یزید رحمۃ اللّٰہ علیہ سواری پر جارہے ہوتے تھے ۔اذان کی آواز سنتے تو فورا سواری سے اُترتے اور نماز ادا فرماتے ۔ایک بزرگ لکڑیاں کاٹ رہے ہوتے تھے ۔لکڑیاں کاٹنے کے لئے کلہاڑا سر پر اٹھایا ہوتا تھا ۔اذان کی آواز سنتے تو کلہاڑا نیچے رکھ دیتے اور فرماتے ۔اب پہلے رب کاکام پھر اپنا کام ۔ بزرگوں کے اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں کہ اذان کی آوازسن کر دنیاوی کاموں کو چھوڑ دیتے اور رب تعالیٰ کے حکم کی طرف متوجہ ہوجاتے اور ایک ہم ہیں کہ اذان سن کر بھی مسجد میں جماعت کو نہ آئیں۔ اس لئے نماز باجماعت کا اہتمام ہونا چاہئے اور بغیر کسی شدیدبیماری کے گھر میں نماز پڑھنے کی عادت کو چھوڑ دینا چاہئے ۔اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ہمت نصیب فرمائے آمین ثم آمین ۔