درس11


فتح مکہ
مکہ مکرمہ رُوئے زمین پر سب سے مقدس شہرہے ۔یہاں مسلمانوں کی عبادت کا مرکز خانہ کعبہ ہے ۔اس خانہ کعبہ کو قبلہ کہاجاتا ہے ۔دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہے ۔مکہ مکرمہ زمین کے عین وسط میں ہے ۔یہ آپ صلی اللّٰہ علیہ سلم کا آبائی شہر ہے۔رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آخری نبی اور عالمی نبی ہیں ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا دین، جامع دین اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شریعت عالمی شریعت ہے ۔اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دعوت کا مرکز مکہ مکرمہ کو بنایا تاکہ پورے عالم میں یکسانی کے ساتھ یہ دعوت اور یہ شریعت پہنچ سکے ۔
حضور نبی رحمت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے دعوتِ دین کا آغاز فرمایاتو یہاں کے لوگ مخالفت پر اُتر آئے ۔مختلف حیلوں ، بہانوں سے پیغمبرخدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اپنے مشن سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگے ۔صورتحال مشکل ہوئی تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے طائف کا سفر فرمایا،مگر وہاں بھی ماحول ساز گار نہیں تھا ۔آخر اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی ۔
رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ چھوڑا تواللّٰہ تعالیٰ نے اُسی وقت بشارت دی کہ آپ فاتح بن کر شان وشوکت سے مکہ مکرمہ واپس آئیں گے ۔ چنانچہ ہجرت کے ٨ سال بعد مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ یہ رمضان المبارک کی دس تاریخ تھی کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکرجرار لے کر نکلے ۔
دنیا کے ماہرین جنگ،فلاسفر نبی الملاحم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اس جنگی حکمت عملی پر حیران ہیں کہ رسول مجاہد صلی اللّٰہ علیہ وسلم دس ہزار کا عظیم لشکر لے کر مشرکین ِمکہ کے سر پر جاپہنچے اور اُنہیں کوئی خبر تک نہیں ہونے دی ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرالظہران (الجموم) پہنچے ۔یہ مکہ مکرمہ کے بالکل قریب ہے ۔رات کے وقت حکم دیا کہ سب الگ الگ آگ جلائیں ۔سینکڑوں جگہوں پر آگ جلی ۔یہ ایک جنگی تدبیر تھی ۔پہلے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی آمد کو مخفی رکھا ہوا تھا کہ مکہ والوں پر ہم اچانک پہنچ جائیں اور اب سب کو الگ الگ آگ جلانے کا حکم دیا تاکہ بہت زیادہ روشنیوں سے ان پر ہیبت طاری ہو ۔وہ مرعوب اور دہشت زدہ ہوجائیں اور خونریزی کے بغیر ہی مکہ مکرمہ فتح ہوجائے ۔مکہ والوں میں سے کچھ لوگ اس سمت میں نکلے ہوئے تھے ۔انہوں نے یہ روشنیاں دیکھیں تو حیران رہ گئے اور مسلمانوں کے اتنے بڑے لشکر کو دیکھ کر ان پر خوف طاری ہوگیا ۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذو طویٰ(مکہ مکرمہ کے بالکل قریب) میں پہنچے تو اپنالشکر اس انداز سے ترتیب دیا کہ مکہ مکرمہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور اس خطرے کے پیش نظر کہ کہیں کوئی شریر النفس شرارت نہ کرے،لشکر کو کئی حصوں اور دستوں میں ترتیب دیا اورہدایت کی کہ اگر کوئی سامنے حملہ کرتاآئے تو اسے قتل کردیں ورنہ ازخود کسی پر ہاتھ نہ اُٹھائیں۔تمام دستے ہدایات ِنبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مطابق اپنے اپنے رخ پر چل نکلے ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حیران کن جنگی حکمت عملی سے کفار پر ایسی ہیبت طاری ہوئی،کہ انہیں سر اٹھانے کی بھی ہمت نہ ہوئی ۔یوں بغیر کسی خون خرابے کے مکہ مکرمہ فتح ہوگیا۔یادگار فتح کی نعمت کے شکرانے کے طور پرجوشِ مسرت میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ترنم اور خوش الحانی کے ساتھ (اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِیناً)کی تلاوت فرماتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے ۔
خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو خابہ کعبہ بتوں سے بھرا ہوا تھا ۔ہر خاندان کا اپنا اپنا بت تھا ۔ ٣٦٠ بت بڑے سلیقے اور عقیدت سے رکھے گئے تھے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تمام بت توڑ ڈالے ۔ کمان یا لکڑی کا اشارہ کرتے تو بت گر کراُلٹا ہوجاتا ۔بتوں کو توڑتے اور گراتے وقت آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری تھا (ْجَاء الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ )۔۔۔۔۔۔حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔۔۔۔۔۔مکہ والے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے اوراب اُنہیں یقین آرہا تھا کہ بت کچھ نہیں کر سکتے ۔ مشرکوںکا بڑا بت ”ہبل” جب توڑد یا گےاتو وہ حیرت وتعجب میں ڈوب گئے ۔اُنہیں کیا خبر تھی کہ یہ بت اتنے کھوکھلے اور بے بس ہوتے ہیں ۔خانہ کعبہ سے باہر نکلے تو مکہ والوں سے مخاطب ہوئے اور پوچھا:” تمہیں مجھ سے کس قسم کے سلوک کی توقع ہے ؟”۔۔۔۔۔۔ اُنہوں نے کہا: ”آپ شریف بھائی ،شریف بھائی کے بیٹے ہیں ،ہمیں آپ سے خیر کی توقع ہے ۔اگر چہ آپ کو ہم پر مکمل غلبہ حاصل ہے ۔آپ جوچاہیں کرسکتے ہیں ”۔۔۔۔۔۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:” میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے کہی تھی: (( لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم ۔۔۔۔۔۔اذھبو۔فانتم الطلقاء)) آج تم پر کوئی عتاب اور کوئی باز پرس نہیں ہے ۔جاؤ تم سب آزاد ہو” ۔
یہ فتح مکہ کا عظیم سبق ہے ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو مکہ والوں کے ظلم وستم کی سب داستانیں یادتھیں ،اپنے اصحاب رضی اللّٰہ عنہم پر بیتی ہوئی مشقتیں اورسزائیں بھی نہیں بھولے تھے ،مگررحیم وشفیق پیغمبرصلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سب کچھ بھلا کر عام معافی کااعلان فرمایا ۔ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مؤذن ِاسلام بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:خانہ خدا کی چھت پر چڑھ کر صدائے تو حید بلندکرو ۔اُنہوں نے اذان دی ۔۔۔۔۔۔ زمانوں بعد توحید کی آواز بیت اللّٰہ میں گونجی اور شرک کانام ونشان مٹ گیا ۔
فتح مکہ کے بعد آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارد گرد کے علاقوں کے مشہور بت خانوں کی سرکوبی کے لئے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دستے بھیجے ۔اسی سفر میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے طائف کی طرف بھی جہاد فرمایا ۔رمضان المبارک کی دس تاریخ کو نکلے اور ذی قعدہ کے آخرمیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے ۔اس سارے سفر میں تقریباً ڈھائی ماہ لگے ۔فتح مکہ سے سارے عرب میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دھاک بیٹھ گئی اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے ۔اسی کی طرف قرآن کریم نے اشارہ فرمایا ۔(یَدْخُلُونَ فِیْ دِیْنِ اللَّہِ أَفْوَاجاً)۔یہ فتح دین ِمحمدی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی فتح مبین ہے ۔ مؤرخین اس کو فتح اعظم کے نام سے یاد کرتے ہیں۔یہ اسلام کی فتح اور کفر کی شکست تھی ۔دنیائے عرب کی نظریں مکہ مکرمہ پر لگی تھیں۔سب اس انتظار میں تھے کہ اگر محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ فتح کرلیا تو یقینا وہ نبی صادق ہیں۔ اس لئے فتح مکہ کے بعدقبائل نے قبول اسلام میں دیر نہ کی ۔یوں پھرسارا عالم دین محمدی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی روشنی سے جگمگا اُٹھا۔