رمضان المبارک اور سخاوت
حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہمافرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تمام انسانوں میں سب سے زیادہ جود وسخا والے تھے اورماہِ رمضان میں مہینہ ختم ہونے تک توآپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ہمیشہ سے زیادہ) سخاوت کرنے والے تھے۔علماء کرام نے لکھا ہے کہ رمضان المبارک میں سخاوت میں اضافہ کے اسباب یہ ہیں: (١) اس ماہ میں خود رب ذو الجلال بھی جودوسخاوت میں اضافہ فرماتے ہیں ،تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جو کہ اللّٰہ تعالیٰ کی صفات کے مظہرِ اتم ہیں،اُن کی سخاوت میں بھی خوب خوب اضافہ ہوجاتا تھا۔(٢) جبرئیل علیہ السلام رمضان المبارک میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے اور قرآن کریم کا دور کرتے تھے ۔تو جبریل علیہ السلام کی ملاقات اور صحبت کا بھی اثر ہوتا اور خوب سخاوت فرماتے ۔(٣) قرآن کریم کا دَور ہوتااور اللّٰہ تعالیٰ کا کلام پڑھنے کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ سے ربط اور قرب ہوتا ۔ حدیث شریف میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سخاوت کو”تیز چلنے والی ہوا” کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سخاوت اس سے بھی بڑھ کر تھی۔یعنی جس طرح ہوا چلتی ہے تو ہر جگہ پہنچتی ہے اور ہر شخص کو فائدہ پہنچتا ہے ۔اسی طرح رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سخاوت کا اثر ہر جگہ اور ہر شخص کو پہنچا کرتا تھا ۔پھر حدیث شریف میں یہ لفظ آیا ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سخاوت تیز ہوا سے بہت زیادہ ہوتی تھی۔کیونکہ ہواصرف جسموں کو پہنچتی ہے اور جسموں کو ہی فائدہ پہنچتا ہے اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سخاوت جسم اور روح سب چیزوں کو پہنچتی تھی ۔
رمضان المبارک تو ویسے بھی ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے۔اس لئے ہمیں خوب سے خوب سخاوت کرنی چاہئے ۔سخاوت میں یہ بھی ہے کہ کسی روزہ دار کو افطار کرایا جائے ۔اس کا بہت ثواب ہے ۔رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے، اس کے لیے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا۔
اور اس کے ساتھ ساتھ روزہ افطار کرانے والے کو بھی اتنا ثواب ملے گا جتنا روزہ دار کو روزہ رکھنے کا اجر وثواب ہے اور روزہ دار کے اجر وثواب میں بھی کسی اور کی طرف سے افطاری کرانے پر کوئی کمی نہیں ہوگی۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص حلال کمائی سے رمضان میں روزہ افطار کرائے، اس پر فرشتے رحمت بھیجتے ہیں۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جب روزہ افطار کرانے کا اجر وثواب بیان فرمایا تو بعض صحابہ رضی اللّٰہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللّٰہ ! ہم میں سے ہر شخص یہ استطاعت نہیں رکھتا کہ کسی کو روزہ افطار کرائے۔ مقصد یہ تھا کہ غریب لوگ تواس ثواب سے محروم ہوجائیں گے۔ تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللّٰہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرمائے گا جو ایک کھجور سے یا پانی کے ایک گھونٹ سے کسی کا روزہ افطار کرادے یا کسی کو لسی کا ایک گھونٹ پلادے، وہ بھی روزہ افطار کرانے کے اجر وثواب سے محروم نہیں رہے گا۔ یعنی روزہ افطار کرانے کا مقصد پیٹ بھر کے کھلانا نہیں ہے۔
ایک روایت میں یہ بھی ہے۔ فرمایا: اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلادے، اس کو اللّٰہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی، یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔
رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ رمضان المبارک میں ہر قسم کی عبادت کی کثرت فرماتے ۔خوب کثرت سے تلاوت ،نماز ،ذکر ،صدقہ ،خیرات اور اعتکاف فرماتے ۔
ایک معمول یہ بھی تھا کہ رمضان المبارک میں رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم قیدیوں کو آزاد فرماتے ۔آج کل قیدیوں کاسلسلہ تو نہیں ہے ۔اِس لئے جن حضرات کے ماتحت لوگ ،مزدور وغیرہ کام کرتے ہیں تو اُن پر آسانی کی جائے ،اُن کا خیال رکھا جائے ،اُن کی مدد کی جائے ۔رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام اور خادم کے بوجھ کو ہلکا کردے، حق تعالیٰ شانہ اس کی مغفرت فرمادیتے ہیں اور جہنم کی آگ سے اُسے آزاد فرمادیتے ہیں۔
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حقیقی اتباع نصیب فرمائے ۔آمین ثم آمین
