*غمگسارِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم،امی جی سیدہ خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا*
آج دس رمضان المبارک ہے اور مشہور قول کے مطابق اس تاریخ کو امی سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ کا انتقال ہوا۔ ام المؤمنین حضرت خدیجہ بنت خویلد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی زوجہ محترمہ ہیں۔ان کا تعلق مکہ مکرمہ کے ایک معزز اور مالدار گھرانے سے تھا جو اپنی عمدہ عادات اور دینداری میں مشہور تھا ۔حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللّٰہ عنہاکے تجارتی قافلے کے ساتھ ملک شام کا سفر کیا اس سفر میں خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا کا غلام میسرہ بھی ساتھ تھا ۔اس نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دیانت و امانت اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے برکات کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا اور واپسی پر میسرہ نے پیش آنے والے تمام حالات و واقعات حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا کو بتائے ، اور اس سفر میں تجارت کا نفع بھی کئی گنا زیادہ ہوا۔ حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا نے ان حالات و واقعات اور زیادہ منافع پر تعجب کا اظہار کیا اور حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شرافت اور دیانت و امانت سے بہت متأثر ہوئیں۔سیدہ خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا نے حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کوپیغام نکاح دیا۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا یوں سیدہ خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا ام المؤمنین بن گئیں۔
سخت مشکلات کے دورمیں شہرمکہ کے بے رحم اور سر کش لوگ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کواذیتیں دیتے ،ٹھٹھے کرتے اور مذاق اڑایا کرتے تھے ،آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جب بھی زخمی دل لئے گھر تشریف لاتے،تو ایک خاتون ہشاش بشاش چہرہ لئے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا استقبال کرتیں ،وہ اپنی تبسم ریز نگاہوں اور سرور میں ڈوبے تسلی آمیزکلمات سے آپ کا حزن وغم دور کرتیں، ۔ہمت بڑھاتیں۔ان کی باتوں کی شیرینی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مقدس کانوں میں رس گھولتی رہتی ۔ان کے تسلی آمیز جملوں کی گونج کم نہ ہوتی ،سو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پھر سے تازہ دم ہوکر تبلیغ دین کے لئے نکل پڑتے ،یہ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللّٰہ عنہاتھیں۔ وہ مالدار ،ناز ونعم میں پلی ہوئی تھیں مگر راضی بخوشی نہ صرف ہر راحت کو چھوڑا بلکہ ہمہ قسم کی تکالیف اور مصائب برداشت کرنے اور حق کا ساتھ دینے کے لئے کمر بستہ ہوگئیں ۔اپنا سب کچھ خاتم المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم پروقف کرکے اُن پر قربان ہوگئیں ۔ہرمصیبت ومشکل میں اپنے سرتاج کے ساتھ مردانہ وار کھڑی قربانی اور فِداکاری کا اظہار کرتی رہیں ۔
حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا کی خصوصیات میں سے ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا کی زندگی میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کسی دوسری عورت سے شادی نہیں کی۔حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رب العالمین کا سلام حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا کو پہنچایا۔
آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم کے ، ان سے پیدا ہوئی۔ اُن کی وفات ہوئی تو عہد سیرت میں یہ سال ”غم کا سال ”کہلایا ۔ کیونکہ وہ غمگسار سیرت تھیں۔جب لوگوں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تکذیب کی، انہوں نے تصدیق کی۔ لوگوں نے جنگ کی، خدیجہ رضی اللّٰہ عنہانے تائید کی۔لوگوں نے محروم کیا، سیدہ نے عطاؤں کی بارش کی۔ہر مشکل اور کڑے وقت میں شانہ بشانہ رہیں ۔حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم پوری زندگی ان کی وفاؤں کو یاد کرتے رہے ۔ ان کی وفات ماہ رمضان ١٠ نبوی میں ہوئی (ایک روایت میں وفات کا مہینہ شوال بتایا گیا ہے )رسول اللّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کے فراق اور ان کی وفات پر اتنا روئے کہ اس قدر کوئی کسی پر رویا ہوگا ،کیونکہ وہ آپ کی اہلیہ،محترمہ،محبوبہ،دوست اور عظیم مشفقہ تھیں۔ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم خود ان کی قبر میں اُترے اور اپنی سب سے بڑی غمگسارکو داعی اجل کے سپرد کیا ۔ان کی قبر مبارک مکہ مکرمہ کے قبرستان جنت المعلیٰ میں ہے ۔اللّٰہ تعالیٰ تا قیامت ان کے درجات بلند فرمائے اور امت مسلمہ کی خواتین کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین۔
