درس17

غزوہ بدر

اسلام کی پہلی دوبدو لڑائی”غزوہ بدر” ہے۔اس غزوہ کی قیادت خود رسول مجاہد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی ۔مکہ سے کافروں کے ایک ہزارجنگجوڈھول ،باجے اور گانے بجانے والی لونڈیوں کی عیش وعشرت کے جلو میں بدرکی طرف نکلے۔ ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد ٣١٣ تھی ۔سواری کے لئے ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ١٢ رمضان المبارک کو مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے ۔١٦ رمضان المبارک کے دن بدر پہنچے اور ١٧ رمضان المبارک کو غزوہ بدر ہوا۔ لڑائی سے پہلے والی رات میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعض صحابہ رضی اللّٰہ عنہم کو لے کر اس میدان بدرمیں گئے اور دست مبارک سے اشارہ کر کے فرماتے تھے ((ھذا مصرع فلان، وہذا مصرع فلان، إن شاء اللّٰہ))”فلاںکافر کی قتل گاہ یہ ہے ،فلاں کافراس جگہ مردار ہوگا ،ان شاء اللّٰہ ”۔۔۔۔۔۔صحابہ رضی اللّٰہ عنہم فرماتے ہیں کہ جہاں جہاں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کی قتل گاہیں بتلائی تھیں ،سب کے سب انہی جگہوں پرقتل ہوئے ۔

حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللّٰہ عنہم تھکے ہوئے تھے ،سب سو گئے ۔مگررسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پوری رات جاگتے رہے ۔گریہ وزاری اور دعا کرتے رہے ،حتیٰ کہ صبح ہوگئی۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سب کو نماز کے لئے اُٹھایا اور فرمایا((الصلوٰۃ یا عباد اللّٰہ)) اللّٰہ کے بندو !اُٹھو،نماز کا وقت ہوگیا۔ آواز سن کر سب جمع ہوئے اور ایک درخت کی جڑ میں کھڑے ہوکر سب کو نماز پڑھائی ۔نماز کے بعد صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم کو جہاد فی سبیل اللّٰہ کی ترغیب دی ۔

یہ رمضان المبارک کی ١٧ تاریخ اورجمعۃ المبارک کا دن تھا ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صفیں ترتیب دیں۔ ہاتھ میں ایک تیر تھا۔صف میں سے سواد بن غزیہ رضی اللّٰہ عنہ ذرا آگے کو نکلے ہوئے تھے ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ازراہ ِمحبت ان کے پیٹ میں ایک ہلکا سا کوچہ دے کر فرمایا:”اے سواد! سیدھے ہوجاؤ” ۔۔۔۔۔۔سوادنے عرض کیا :” یا رسول اللّٰہ ! آپ نے ٹھوکر مار کر مجھے تکلیف پہنچائی ہے ،آپ کو اللّٰہ تعالیٰ نے انصاف کے ساتھ بھیجا ہے۔ مجھے موقعہ دیں ، میں اپنا بدلہ لوں گا”۔۔۔۔۔۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپناکپڑا ہٹا کے پیٹ کھول دیا اور فرمایا:”بدلہ لے لو ”۔۔۔۔۔۔ سواد رضی اللّٰہ عنہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سینے سے لگ گئے اور پیٹ مبار ک کو بوسہ دیا ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:” یہ کیا ہے؟” ۔۔۔۔۔۔کہا :” یارسول اللّٰہ ! بدلہ نہیں لینا تھا ۔آپ دیکھ رہے ہیں کہ جنگ سر پر ہے ۔میری تمنا ہے کہ آپ کے ساتھ جو آخری لمحہ گزرے ،تو میرا جسم آپ کے جسم سے مس کرے ”۔۔۔۔۔۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اُن کے لئے دعا فرمائی۔

سعد بن معاذرضی اللّٰہ عنہ کے کہنے پر آ پ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لئے بلند ٹیلہ پر ایک عریش یعنی چھپر سا بنایا گیا۔ جس پر کھڑے ہوکر تمام میدان ِکارزار نظر آتا تھا۔جہاں سے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پورے میدان کی قیادت فرماتے رہے ۔احکامات جاری فرماتے رہے ۔ جس جگہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لئے عریش یعنی چھپر بنایاگیا تھا،وہاں بعد میں مسجد بنا دی گئی۔ مسجد کانام ‘مسجد العریش ‘ہے۔

اوّل اوّل انفرادی مقابلہ ہوا ۔ کا فروں کی طرف سے عتبہ ،شیبہ اور ولیدنکلے ۔مسلمانوں کی طرف سے عبیدہ بن الحارث،سیدناحمزہ اورحضرت علی رضی اللّٰہ عنہم نکلے۔ کافروں کے یہ تین جنگجو ہلاک ہوئے تو لڑائی گرم ہوگئی ۔۔۔۔۔۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پھر عریش میں سر بسجود ہوگئے ۔خشو ع وخضوع کی عجیب کیفیت طاری تھی ۔کبھی آہ وزاری کرکے گڑگڑاتے۔کبھی فتح ونصرت کی دعا کرتے ۔فرما رہے تھے: ”اے اللہ! اگر یہ مٹھی بھر لوگ ہلاک ہوگئے تو پھر زمین پر تیرا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا” ۔

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو عریش میں کچھ غنودگی سی آگئی ۔فوراً چونک گئے اور فرمایا: اے ابو بکر!تمہیں خوشخبری ہو ۔اللّٰہ تعالیٰ کی مدد آگئی ہے ۔یہ جبریل امین اپنے گھوڑے کی باگ پکڑے ہوئے پہنچ گئے ہیں ۔پھر رسول مجاہد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللّٰہ عنہم کو بھی بشارت دی۔ بدر میں آج بھی وہ پہاڑی موجود ہے ،جس کے بارے میں مشہورچلا آرہا ہے کہ فرشتے آسمان سے اس جگہ پر اُترے تھے ۔اس پہاڑی کانام ”جبل الملائکۃ”ہے ۔ بہرحال میدان ِکار زار گرم ہوا ۔حق وباطل کی ٹکر ہوئی ۔فرشتوں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ جہادمیں حصہ لیا ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مٹی اُٹھا کر کفار کی طرف پھینکی ۔مٹی لگی تو کفار بد حواس ہوئے۔کچھ سمجھ نہ آتا تھا کہ کہاں جائیں ۔ شکست کھاکر بھاگے ۔مسلمانوں نے اُن کا تعاقب کیا ۔٧٠قتل ہوئے اور٧٠ کوگرفتار کیا گیا۔قتل ہونے والوں میں کفار کے سرغنہ ابو جہل بھی اور گرفتار ہونے والوں میں عقبہ بن ابی معیط بھی تھا ،یہ مسلمانوں کا بہت خطرناک دشمن تھا ۔اس نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ میں بہت اذیتیں دیں ۔ایک بار آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نماز میں تھے ۔اس نے پیٹھ مبارک پر اونٹ کی اوجھڑی لاڈالی ۔آپ کا گلا بھی گھونٹا تھا۔ ایک بار آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے چہرے پر بھی تھوکا تھا ۔مدینہ منورہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا ۔

    خلاصہ یہ ہے کہ کثرت تعداد و اسلحہ کے باوجود کفر کو ذلت آمیز اور عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا جس سے کفار مکہ کا زور ٹوٹ گیا اور ان کے حوصلے پست ہوگئے ، مسلمانوں کی ہمتیں بڑھ گئیں اور عزم بلند ہوگئے۔عرب کے قبائل کو مسلمانوں کی قوت ، سر بلندی اور سچائی و حقانیت کا یقین آگیا ۔ ساتھ ہی یہ راز بھی منکشف ہوگیا کہ حق کے مقابلے میں تعداد اور ساز و سامان کی کثرت کام نہیں آسکتی ۔ فتح و کامرانی صرف حق کی ہوا کرتی ہے۔غزوہ بدر میں مسلمانوں میں سے چودہ صحابہ کرام شہید ہوئے ۔ان کا مقبرہ شہر بدر میں موجود ہے ۔بہت سا مال غنیمت حاصل ہوا جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مجاہدین میں تقسیم فرمایا ۔مزید تفصیل کے لئے دیکھئے عاجز کی کتاب : نقوش پائے مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔