طائف کے مقامات کی زیارت

*طائف کاایک سفر*

عام طور پر جو حجاج اور زائرین مکہ مکرمہ آتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ تاریخی شہرطائف کی بھی زیارت کریں،جہاں حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قدم مبارک لگے۔ عیدالفطر کے مبارک دن میں ہمارا پرگرام طائف جانے کا بنا۔اس دوران ہمارے محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا فداء اللّٰہ صاحب دامت برکاتہم (ناظم تعلیمات جامعہ الصفہ کراچی)جو کہ مدینہ منورہ میں قیام پذیر تھے انہوں نے پیغام بھیجا کہ آپ اپنا طائف کا سفر ہمارے مکہ مکرمہ آنے تک موخر کریں ہم بھی آپ کے ساتھ طائف جانا چاہتے ہیں ۔چنانچہ دودن بعد حضرت شیخ الحدیث مولانا فداء اللّٰہ صاحب زیدمجدھم کی سرپرستی میں ہم نے طائف کا سفر شروع کیا ۔ ہمارے اس قافلہ میں ہمارے محترم دوست حضرت مولانا جمعہ خان صاحب،مولانا محمد عاصم صاحب استاد جامعہ الصفہ، مولانا محمد فرمان صاحب ، بھائی حاجی سجاد حسین صاحب شامل تھے۔ گاڑی والے سے یہ طے ہوا کہ ہمارا جانا طریق الہدا ء سے ہوگا اور واپسی قرن المنازل سے ہوگی، کیونکہ روایات میں آتا ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تبلیغی سفر میں طریق الہدا ء سے طائف تشریف لے گئے تھے اور واپسی قرن المنازل سے ہوئی تھی ۔ہم نے بھی اپنے سفر کی ترتیب اسی طرح رکھی۔ طریق الہداء پہاڑوں کے اوپر سے گزرتا ہوا پیچ دار اور مشکل راستہ ہے، مکہ مکرمہ سے منیٰ ،مزدلفہ، عرفات کے قریب سے گزرتا ہوا یہ راستہ الہداء پہاڑ کے اوپر سے طائف کی طرف جاتا ہے۔ پہاڑ کی بلندی پر گاڑیوں والے سٹاپ کرتے ہیں ۔ہم بھی وہاں رکے۔ہرطرف پھلوں کی دکانیں ہیں جہاں ہر طرح کا اورہرموسم کا پھل ملتا ہے۔یہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ ہے کہ عرب میں ہر موسم کا پھل پہنچتا ہے ۔ہمارے ساتھیوں نے بھی یہاں شہتوت، انجیر،آلوبخارا،انگور ،تربوز وغیرہ خریدے اور طائف کے ایک خوبصورت پارک میں بیٹھ کران پھلوں پر ہاتھ صاف کیا۔ طائف بہت خوبصورت ،سرسبزوشاداب شہر ہے ۔یہاں کی انتظامیہ نے بھی اس کو حسین بنانے میں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ہمارے محترم دوست وعزیز مولانا محمد عاصم صاحب کے پاس اچھی کوالٹی اور عمدہ رزلٹ والا موبائل تھا۔اُنہیں ہمارے ساتھ سفر طائف کرنے کا بھی بڑا شوق تھا۔وہ ایک باذوق انسان اور بہترین ہم سفر ہیں،یہ تمام تصاویر ان کے موبائل کی مرہون منت ہیں ۔

طائف کے مقامات کے سلسلہ میں ہمارا پہلا قیام مسجد ابن عباس تھا۔ یہ مسجد اس جگہ بنائی گئی ہے جہاں غزوہ طائف میں رسول مجاہد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا خیمہ تھا ،بعد میں حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہا نے یہاں قیام کیا تو یہ مسجد ان کے نام سے مشہور ہوگئی۔قریب ہی ایک مقبرہ میں حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہما کی قبر ہے۔ ہم نے مسجد میں دو رکعت نماز پڑھی۔۔طائف کاایک مشہور مقام بنو سعد کاعلاقہ ہے جو اماں حلیمہ سعدیہ رضی اللّٰہ عنہاکا وطن ہے۔ آج کل اس علاقہ کانام الشوحطہ ہے اور وادی حلیمہ سے مشہور ہے ۔الحمدللہ اس عاجز کواس سے پہلے دو مرتبہ وادی حلیمہ میں زیارت کا موقع ملا مگر اس بار ڈرائیور جانے کے لیے تیار نہیں ہوا، اس نے کہا کہ آج کل وادی حلیمہ جانے پر پابندی ہے ،اس لیے ہم مسجد عداس کی طرف روانہ ہوئے۔

 یہ مسجد اس صحابی کی نسبت سے ہے جنہوں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں انگور پیش کیے تھے جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم زخموں سے چور انگوروں کے اس باغ میں پہنچے تھے ۔ان کے نام کی نسبت سے یہاں مسجد تعمیر ہوئی۔مسجد کے آس پاس ابھی بھی سبزہ ہے ، باغات ہیں۔ انجیر کے درخت اور انگوروں کا باغ ہے ۔

مسجد عداس کی زیارت سے فارغ ہوکر ہم مسجد المدہون پہنچے۔ ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا ہم نے یہاں باجماعت نماز ادا کی۔ اس کے بعدمسجد الکوع ،مسجد الموقف کوروانہ ہوئے ۔ یہ دونوں مسجدیں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے منسوب ہیں ،کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے تبلیغی سفر میں یہاں آئے تھے۔ان مقامات کی زیارت کے لئے بہت سے لوگ آئے ہوئے تھے۔پاکستان ،بنگلہ دیش، عرب اور انڈونیشیاکے زائرین کثرت سے یہاں نظر آئے ۔ مسجد الکوع اور مسجد المدہون قدیم تعمیر اور ثقافت کی عکاسی کرتی ہیں ۔مسجد الکوع کے قریب صدیوں پہلے کے پتھروں سے بنے ہوئے گھر بھی ہیں ۔ہمارے احباب ان تاریخی اور مبارک مقامات کی زیارت سے کافی دیر تک لطف اندوز ہوتے رہے ۔

طائف کے ان مقامات سے فارغ ہوکر اب ہم مکہ مکرمہ کی طرف واپس آ رہے تھے ۔دوپہر کے دو بج رہے تھے ۔ احباب کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔سفر طائف کی طرف جانے سے پہلے ہی ہمارے سخی وکریم دوست بھائی حاجی سجاد حسین نے کہا تھا کہ واپسی پر ہم ان تمام علماء کرام کی دعوت کریں گے ۔ چنانچہ انہوں نے عرب کی مشہورڈش رز بخاری سے ہماری تواضع کی۔ اب ہماراسٹاپ قرن المنازل تھا۔ یہ طائف اور اس سمت سے آنے والوں کی میقات ہے ۔آج کل اس کو سیل کبیر بھی کہتے ہیں ۔یہ وہ مقام ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم جب اپنے تبلیغی سفر میں طائف والوں کے ظالمانہ روّیہ سے رنجیدہ اور افسرد ہ یہاں پہنچے تو جبریل علیہ السلام نے یہاں حاضر ہو کر اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا کہ اگر اجازت ہوتو پہاڑوں کے درمیان طائف والوں کو کچل دیاجائے ۔رحمت عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:”نہیں مجھے امید ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ضروراس قوم میں ایسے لوگ پیدا فرمائیں گے جو اس کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کريں گے” ۔
ہم نے یہاں پہنچ کر احرام باندھا ۔تلبیہ پڑھتے ہوئے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے ۔سیل کبیر سے نکلنے کے بعد وادی نخلہ کاعلاقہ آتا ہے۔ وادی نخلہ وہ مقام ہے جہاں جنات نے فجر کی نماز میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا قرآن سنا تھا، جو ان کے قبول اسلام کا ذریعہ بنا۔ وادی نخلہ کے بعدحنین کا علاقہ آتا ہے ۔حنبن ایک وادی کانام ہے ۔اس کا نام وادی الشرائع بھی ہے ۔اس کے اعلیٰ حصہ کو الصدر کہتے ہیں ۔مسجد حرام سے تقریباً ٣٥ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ مکہ مکرمہ ، طائف روڈ پرالشرائع اور الزیمہ کے درمیان اس کا محل وقوع ہے ۔ وادی کاطول لگ بھگ٥ کلومیٹر ہے ۔ آج کل وادی حنين کامحل وقوع بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں ۔ان تمام مقامات کی تفصیل ہماری کتاب نقوش پائے مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں ہے ۔وادی الشرائع سے نکلنے کے بعد ہمارے دائیں ہاتھ جعرانہ کا بورڈ دکھائی دیا ۔یہ وہ مقام ہے جہاں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کی غنیمت تقسیم فرمائی اور جعرانہ کے مقام سے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عمرے کا احرام بھی باندھا ہے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ زائرین کو جعرانہ سے بھی ضرور ایک بار عمرہ کرنا چاہیے ۔بہرحال کچھ دیر بعد ہم مکہ مکرمہ پہنچ گئے اورعمرہ ادا کیا۔یوں ان علماء کرام کی معیت میں  طائف کا ایک اور سفر اختتام پذیر ہوا۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو مقدس مقامات کی بار بار زیارت نصیب فرمائے ،آمین ثم آمین