مسجد جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ

مسجد جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ

المندق کےتاریخی مقامات کی زیارات سےفراغت کے بعد ہم طائف ومکہ مکرمہ کی طرف واپس ہو رہے تھے ۔آخر میں ایک اہم مقام جلیل القدر صحابی حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ کی مسجد کے زیارت باقی تھی۔حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں ۔رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے وصال سے چند ماہ قبل مشرف بہ اسلام ہوئے ۔انہوں نےروایت بیان کی  ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (دوسروں ) پر رحم نہ کرے گا پروردگار بھی اس پر رحم نہیں کرے گا( صحیح بخاری)

حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے سردار اور بےحد خوبصورت تھے اسی وجہ سے حضرت عمر فاروق رضی  اللہ عنہ آپ کو ”اُمّت ِمحمدیہ کا یُوسُف“ کہتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ  کا قد مبارک اتنا طویل تھا کہ کھڑے ہوتے تو اُونٹ کی کوہان تک پہنچ جاتے، جُوتوں کی لمبائی تقریباًڈیڑھ فُٹ ہوتی تھی۔حضرت جَریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سے  میں مسلمان ہوا ہوں رسول مکرم  صلَّی  اللہ علیہ وسلَّم نے مجھے( کاشانۂ اقدس کی حاضری سے) نہیں روکا اور جب بھی مجھے دیکھتے تو مسکرا ہٹ سے نوازتے۔ ایک بار آپ نے اپنی ایک پریشانی بارگاہِ رسالت میں پیش کی کہ میں گھوڑے پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا ،نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا دست ِاقدس آپ کے سینے پر مارااور دعاؤں سے نوازا:اَللّٰہُمَّ ثَبِّتْہ واجْعَلْہ ھَادِیاً مَھْدِیّاً ترجمہ: الٰہی! اسے ثابت رکھ، اسے ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنادے۔جریر رضیَ اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں اپنے گھوڑے سے کبھی نہیں گِرا۔

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مشہور بت ذوالخلصہ کی تباہی کےلئے ان کی تشکیل فرمائی تھی،انہوں نے رسول قائد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دعا سے کامیاب کارروائی کرکے اس بت کا خاتمہ کیا اور بارگاہ رسالت سے دعائیں حاصل کیں۔آخری عمر میں مقام ِقَرقِیْسِیاء میں رہائش پذیر ہوگئے۔سِن 51یا 54ہجری میں اسی مقام پر وفات پائی۔ایک قول یہ بھی ہے کہ حداد بنی مالک میں وفات پائی۔ان کی مسجدکے قریب ہی ایک قبر ان کی طرف منسوب ھے۔واللہ اعلم۔حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی مسجد حداد بنی مالک میں ھے جو طائف سے جنوب کی طرف تقریبا 142کلومیٹر کی مسافت پر ھے۔یہ جگہ صوبہ مکہ مکرمہ میں اور ضلع میسان میں واقع ہے ۔اس مسجد کی بنیاد چودہ سو سال پہلے رکھی گئی ۔پہلےیہ مسجدقدیم تعمیرکے ساتھ تھی،اب اس مسجد کو جدیداندازمیں تعمیر کیا گیا ہے لیکن تعمیرکاطرز وہی قدیم رکھا گیا ہے۔دروازے لکڑی کے،چھت میں لکڑی استعمال ہوئی ہے،چھت کے ستون لکڑی کے ہیں اور مسجد کے اندرخوبصورت انداز میں قدیم ثقافتی لالٹین وغیرہ لٹکائے گئے ہیں۔ مسجد کے ساتھ ایک دو کمرے بھی ہیں۔پانی کا حوض بھی ہے۔مسجد کے باہر ایک کتبہ لگایا ہے ،اس پر جدید تعمیر کی تاریخ محرم 1441 ستمبر 2019 ۔اس علاقہ کا قدیم نام قریۃ القضاء ہےیا دار القضاۃ ہے ،کہ صحابی جریر بن عبد اللہ البجلی (الشليل بن مالك بن نصر بن ثعلبة)کی اولاد نے علم حاصل کیا اور علم، قضاء ،فتویٰ  میں بہت فائق وماہر ہوئے تو ان کے علاقہ کانام القضاء پڑ گیا۔مسجدکےقریب ہی بہت ہی قدیم ایک عمارت کھنڈرات کی شکل میں موجودہے جواوپر نیچے تقریباتین منزلہ بنی ہوئی ہے اس عمارت کو دارالقضاء کہا جاتا ہے ۔ اس کا بھی طرز قدیم ہے، لکڑی کے دروازے ،لکڑی کی سیڑھیاں، لکڑی کی کھڑکیاں، لکڑی کی چھت۔اس عمارت میں گھومنا پھرنا خطرے سے خالی نہیں۔احتیاط کے ساتھ ہم نے عمارت کی تینوں منزلوں کاچکرلگایا اورچھت پر جاپہنچے،جہاں ارد گرد کا سارا علاقہ نظر آتا ہے۔یہ علاقہ بہت سر سبزوشاداب ہے۔کھیتی باڑی اور خوب ہریالی ہے۔پھرہم نیچے اترکردوبارہ مسجد پہنچے۔اس تاریخی اور قدیم ثقافتی مسجد میں عجیب  نورانیت اور کشش تھی ہم نے یہاں تحیۃ المسجد ادا کی اور کافی دیر تک اس مسجد کی زیارت کرتے رہے اور اس کے بعد طائف جانے والے راستے پر پہنچے ۔ایک ریسٹورنٹ میں رزبخاری سے بھوک مٹائی ،چلتے چلتے مغرب کی نماز مسجد ابن عباس طائف میں ادا کی۔پھرٹیکسی پکڑ کر مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں میقات سے احرام باندھا۔ مکہ مکرمہ پہنچ کر شب جمعہ میں عمرہ ادا کیا۔ یوں کئی سالوں سے المندق ،جبال دوس اور حداد بنی مالک کے علاقہ کی زیارت کااشتیاق تکمیل کوپہنچا۔مسجد جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ کی لوکیش اور کیو آرکوڈ یہ ہے۔

20.591833, 41.023361