ھجرت کے راستے پرسفر(قسط اوّل)گھر سے روانگی
یہ قسط وار سلسلہ مقامات ہجرت سے متعلق ہے۔ عاشقوں کے لئے ایک انوکھی کاوش ہے۔ان شاء اللّٰہ یہ سلسلہ قارئین کے لئے ایمان کی تازگی اور روح کی نشاط کا ذریعہ بنے گا۔یہ سلسلہ مختصر ہوگا ،تفصیل کے لئے اس عاجز کی کتاب ”ہجرت خیر البشر صلی اللّٰہ علیہ وسلم [صدارتی ایوارڈ یافتہ2013ء]”
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کودن میں ھجرت کی اجازت ملی ۔یہ یکم ربیع الاول ١ ھ جمعرات کا دن تھا۔دن میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے گھر جاکر وحی الٰہی کی اطلاع دی ۔چونکہ صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ بھی رفیق سفر تھے ۔اس لئے انہیں بھی تیاری کا حکم دیا۔چنانچہ رات تک صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ اور ان کے اہل خانہ نے سفر کی مکمل تیاری کرلی۔سواریوں کا بندوبست صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ نے کیا ۔زادِ راہ بھی ان کے اہل خانہ نے تیار کیا۔خدمت کے لئے بھی صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ نے اپنا غلام ساتھ لیا۔نبی مہاجر صلی اللّٰہ علیہ وسلم سیدہ خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا والے گھرسے سورہ یسین پڑھتے ہوئے رات میں نکلے۔سیدہ خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا والا گھر کعبہ معظمہ سے ٣٠٩ میٹر کے فاصلہ پرمروہ سے مشرقی رخ پر تھا ۔یہ رات لیلۃ الجمعۃ [شب جمعہ] تھی۔سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ کو اپنے بستر پر سلایا ۔
حزورہ ٹیلے پر کھڑے ہو کر مکہ مکرمہ کو خطاب کیا:مجھے معلوم ہے کہ تو کرہ ارض پر سب سے بہتر جگہ ہے ، اللّٰہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے ۔اگر مجھے میری قوم یہاں سے نہ نکالتی تو میں کبھی تجھے نہ چھوڑتا۔حزورہ ایک اونچاسا ٹیلہ تھاجہاں بازار لگتا تھا ۔خانہ کعبہ سے تقریباً ٧٣ میٹر دور تھا۔یہ جگہ ام ہانی رضی اللّٰہ عنہا کے گھر کے سامنے خیاطین کے قریب تھی ۔ کسی زمانہ میں مسجد حرام کے اس مقام کی طرف کھلنے والے دوازے کانام ”باب الحزورۃ ” تھا ۔بعد میں اس جگہ مسجد کا مینار بنا جس کانام ”مینارۃ الحزورۃ” تھا۔باب الحزورۃ کا نام ”باب الوداع” بھی تھا۔کیونکہ اسی سمت سے نبی مہاجر صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو الوداع کیا تھا۔قدیم زمانہ میں عاشق حاجیوں کا معمول تھا کہ وہ طواف وداع کے بعد ”باب الوداع” سے نکل کر خانہ کعبہ کو الوداع کیا کرتے تھے۔
صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ کے گھر پہنچے۔صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ کا یہ گھر مسفلہ میں تھا۔یہ کعبہ معظمہ سے ٤٣٥میٹر کے فاصلے پر تھا۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے رفیقِ سفر کو ساتھ لے کران کے گھر کی پچھلی جانب کی کھڑکی سے نکلے ۔ھجرت کے مسافروں کی اگلی منزل غار ثور تھی۔


ھجرت کے راستے پرسفر(قسط 2)مکہ مکرمہ کو الوداع
حزورہ ٹیلہ سے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو الوداع کب کہا؟متعدد سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے گھر سے نکل کر حزورہ ٹیلہ پر مکہ مکرمہ کو الوداع کہا اور پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے ۔وہاں سے غار ثور کو روانہ ہوئے۔جغرافیائی اعتبار سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ عبد اللّٰہ القاضی نے اپنے ایک آرٹیکل میں اسی کو اختیار کیا ہے،لیکن اُنہوں نے آگے چل کر پھر لکھا ہے :بعد مغادرۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصاحبہ لمنزل ابی بکر وبعد خروجھما من مکۃ متجھین الی الغار التفت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی مکۃ وقال : اللھم انت احب۔۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ نے منزل ابی بکر چھوڑنے اور مکہ سے نکلنے کے بعد غار کی طرف جاتے ہوئے مکہ مکرمہ کو الوداع کرتے ہوئے کہا:اے مکہ! ۔ کچھ اہل سیر اس الوداع کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے گھر سے نکلنے کے بعدبتاتے ہیں کہ جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے نکلے تو الوداعی کلمات ارشاد فرمائے۔(دیکھئے: خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وسلم از شیخ محمد ابوزھرۃ۔السیرۃ النبویۃ عرض ووقائع از دکتور علی محمد الصلابی)کیونکہ روایات میں الفاظ ہیں:حین خرج من مکۃ،جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے نکلے تو یہ کلمات ارشاد فرمائے۔
کچھ روایات میں ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حجون سے مکہ مکرمہ کو الوداعی کلمات ارشاد فرمائے۔ امام حلبی رحمۃ اللّٰہ علیہ سیرت حلبیہ میں غار ثور سے نکلنے کے بعدالوداعی کلمات کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ کئی بار اور کئی مواقع پرمکہ مکرمہ کو اس جیسے الفاظ کے ساتھ الوداع کہا ہو ۔واللّٰہ تعالیٰ اعلم۔
متعدد مفسرین نے لکھا ہے کہ جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو الوداع کیاتورنجیدہ وافسردہ تھے ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے تسلی اور غم دُور کرنے کے لئے سورہ محمد کی آیت نازل فرمائی :وَکَأَیِّنْ مِنْ قَرْیَۃٍ ۔الخ۔۔۔۔۔۔اے نبی ! بہت سی بستیاں ایسی تھیں جوقوت وزور میں آپ کی اس بستی سے زیادہ تھیں جس کے رہنے والوں نے آپ کو گھر سے بے گھر کردیا ،اُنہیں ہم نے اس طرح ہلاک کردیا کہ کوئی ان کو بچانے والا نہ تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کا گھر مسفلہ میں تھا ۔ھجرت کی مناسبت سے مسفلہ کی ایک سڑک کانام شارع الھجرۃ ہے ،مسفلہ میں ایک مسجد کانام مسجد الھجرۃ ہے ۔
بہرحال مکہ مکرمہ سے نکل کرآپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم غار ثور کی طرف چلے۔مدینہ منورہ توشمال کی طرف پڑتا تھا ۔جنوب میں یمن تھا اور غار ثور بھی جنوبی سمت میں تھا۔کفار کوغلط رُخ دینے کے لئے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یمن کی سمت میں غار ثور کی راہ لی ۔کیونکہ کفار کے وہم وگمان میں بھی نہیں آئے گا کہ محمد[صلی اللّٰہ علیہ وسلم] یمن کی سمت چل پڑیں گے۔ وہ مدینہ منورہ والی سمت یعنی شمال میں تلاش کرتے پھریں گے۔دیکھئے نقشہ میں اس کی تفصیل:نقشہ میں سبز رنگ کے خط سے ہجرت کا راستہ دکھایا گیا ہے ۔سرخ خط قافلوں کی نشاندہی اور نیلا خط آج کل کے خط سریع (مین روڈ) کی نشاندہی ہے ۔سبز رنگ کے گول دائرے مقامات ھجرت کی طرف اشارہ ہیں ۔ یہ نقشہ عبد اللّٰہ القاضی کے آرٹیکل سے لیا گیا ہے۔

ھجرت کے راستے پرسفر(قسط 3)غار ثور کا قیام
محبت کرنے والے دونوں مہاجردوست غارثور کی طرف روانہ ہوئے ۔حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کبھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے آگے ہوجاتے اور کبھی پیچھے ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اسے محسوس کرتے ہوئے وجہ پوچھی:حضرت ابوبکررضی اللّٰہ عنہ نے جواب دیا :”یا رسول اللّٰہ !اس خیال سے کہ آگے دشمن نہ ہو، میں آپ سے آگے ہوجاتا ہوں اور یہ سمجھ کر کہ کہیں پیچھے سے دشمن تعاقب تونہیں کر رہا ،میں آپ کے پیچھے چلنے لگ جاتاہوں۔سنگلاخ راستہ پرنکیلے پتھرنبی مہاجرصلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پائے نازک کو زخمی کررہے تھے،وفادارو جانثاردوست ابوبکررضی اللّٰہ عنہ نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو کندھوں پر اُٹھا لیااور غار کے منہ پرپہنچ کر اُتارا۔حضرت ابوبکررضی اللّٰہ عنہ غارمیں پہلے داخل ہوئے ۔ غار کو صاف کیا ۔سوراخ وغیرہ بند کئے۔ ایک سوراخ کو بند کرنے کے لئے کچھ نہ ملا تو اس میں اپنی ایڑی رکھ دی۔اس سوراخ میں سانپ تھا ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صدیق اکبر کی گود میں سر رکھ کر سو گئے۔ حضرت ابوبکررضی اللّٰہ عنہ کی ایڑی کو سا نپ نے ڈس لیا ۔اُنہوں نے درد سے کراہنے کی آواز کو روکے رکھا۔مگر بلا اختیار درد کی شدت کی وجہ سے آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ آنسوکے قطرے رُخ مبارک پر گرے توآپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بیدار ہوگئے۔ حضرت ابوبکررضی اللّٰہ عنہ نے پوری بات بتائی ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب مبارک لگایا توزہر کے اثرات ختم ہوگئے ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے مکڑی کو حکم دیا اس نے غار کے منہ پر جالا تن دیا اور دو جنگلی کبوتر وں کو حکم دیا وہ غار کے منہ پر جابیٹھے ۔ قریش کے لوگ دائیں بائیں تلاش کرتے رہے ۔ قدموں کے آثار پرچلے تو نشانات نے غار تک پہنچایا۔ مگر غارکے منہ پر مکڑی کا جالااورکبوتروں کے گھونسلے دیکھ کر واپس ہو گئے۔مخالف پارٹی نے مکہ مکرمہ کا چپہ چپہ چھان مارا ۔تلاش کرنے میں ناکام رہے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کے درمیان رہ کر تین دن اپنا نیٹ ورک چلاتے رہے ۔ حضرت ابو بکررضی اللّٰہ عنہ کے صاحبزادے عبداللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ اندھیرا پھیلنے کے بعد غار میں آجاتے اور مکہ مکرمہ کی دن بھر کی خبریں لے آتے ۔سیدہ اسماء رضی اللّٰہ عنہا کھانا لے آتیں۔صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللّٰہ عنہ دن بھر مکے کی چراگاہوں میں اپنی بکریاں چراتے اور شام کے وقت بکریوں کے ساتھ غار کے قریب پہنچ جاتے اور اپنے سرداروں کو دودھ پلاکر واپس چلے جاتے ۔ تین دن تک غار ثور میں قیام رہا ۔
جبل ثور مکہ مکرمہ کا سب سے بلند وبالا پہاڑہے ۔جس کا نظارہ ہر سمت سے کیا جاسکتا ہے ۔العمری رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں :۔لیس فی جبال مکۃ أعلی منہ ولا أوعر،مکہ مکرمہ میں اس سے اونچا اورمشکل تر پہاڑ نہیں ہے۔اس پہاڑ میں ” غارثور”ھے۔ اس غار کو تین دن کائنات کی عظیم ہستی اور سب سے افضل امتی کی میزبانی کا شرف حاصل ہے ۔یہ غارسفرہجرت میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا پہلا محفوظ ٹھکانہ تھا ۔یہ غارکعبہ معظمہ سے ٥٥٠٠ میٹر کے فاصلے پر ہے۔
غار ثور کے تین دن کے تفصیلی واقعات اور معجزات کے لئے دیکھئے ہماری کتاب: ہجرت خیر البشر صلی اللّٰہ علیہ وسلم
غار ثور کے چند مناظر


ھجرت کے راستے پرسفر(قسط 4)غار ثور سے روانگی
مکہ والوں کی پل پل کی خبریں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تک پہنچتی رہیں ۔٣ دن کے بعد جب اُن کا جوش کچھ ٹھنڈا پڑگیا تومدینہ منورہ کی طرف سفر شروع ہوا۔ حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ نے عبد اللّٰہ بن اریقط کو بطور راہبر اجرت پر لے لیا ۔راہبرِ ہجرت نے ساحل سمندر والا راستہ اختیار کیا۔ عام طور پر مدینہ منورہ کی طرف سفر کرنے والے اس راستے سے کتراتے تھے۔کیونکہ یہ کافی طویل اوردشوار گزارراستہ تھا۔غار ثور سے نکل کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اسفل مکہ سے مغرب کی طر ف چلے ۔تقریباً سولہ کلومیٹر مغرب کی جانب چلنے کے بعد پھر شمال کی طرف مُڑے۔ عاشقوں نے ہجرت کے مقامات سے بھی بحث کی ہے۔کتنے محبت وجذبہ والے گزرے ہیں جنہوں نے اس طریق ہجرت پر جذبہ وعقیدت سے سفر کرکیا ہے۔
عبد اللّٰہ القاضی نے اپنے آرٹیکل میں طریق ھجرت کو آٹھ مراحل یعنی آٹھ ایام میں تقسیم کیا ہے ۔مکمل مسافت ٤٣٠ کلومیٹر بنتی ہے ۔ہر مرحلہ ٤٠ سے٥٠ کلومیٹر سفر طے ہوا۔پہلے تین مرحلے ایک تا تین ربیع الاول غار ثور تک کے ہیں۔چوتھا مرحلہ چار ربیع الاوّل کو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم غار ثور سے نکل کر مغرب کی طرف چلے ۔ وادی مکہ (وادی ابراہیم علیہ السلام ) کو عبور کیا ۔ بشیمات اور الدومۃ پہاڑوں کے درمیان سے چلے ۔پھر شمال میں چلے تو بشیمات پہاڑ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دائیں جانب اور ابو عظام پہاڑ آپ کے بائیں جانب یعنی غربی سمت میں تھے۔ شیخ بلادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بقول شمال کی طرف چلتے ہوئے درب الحب (مکہ مکرمہ اور جدہ کاراستہ براستہ حدیبیہ )کو عبور کرکے حدیبیہ کو بائیں اور مکہ مکرمہ کے پہاڑوں کو دائیں رکھتے ہوئے وادی مرالظہران(وادی فاطمہ ) کو عرضاًالحمیمۃ کے پاس عبور کیا ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عسفان کے قریب پہنچے ۔
عسفان شہر میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سفر ہجرت میں داخل نہیں ہوئے ۔البتہ دوسرے اسفار میں اس شہر میں آنا ثابت ہے ۔یہاں ایک کنواں ہے جسے بئر التفلہ کہا جاتا ہے ،کہ یہاں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب مبارک ڈالا تھا ،جس کی وجہ سے کنویں کاپانی میٹھا ہوگیا آج تک اس کنویں کا پانی جاری ہے ۔الحمدللّٰہ اس کنویں کا پانی پینے اوراس سے وضو کرنے کی سعادت اس عاجز کو بھی حاصل ہے ۔[دیکھئے تصاویر،ایک عسفان کنویں کی اور دوسری عسفان شہر کی تصویر ہے]
عسفان کے قریب رات کے وقت سفر ہورہا تھا ۔عسفان سے کنارہ کرتے ہوئے ،اسے دائیں طرف رکھتے ہوئے الغولاء پہنچے ، پھر الغولاء سے اس کی وادی میں تقریبا ً پانچ کلومیٹر سفر ہوتا رہا ۔الکدید (آج کل ا س کانام الحمض ہے)کے قریب عام ومشہور راستہ پر آپہنچے ۔ ابھی بھی رات ہی کا وقت تھا ۔رات کے وقت اتنا زیادہ خطرہ نہ تھا اس لئے عام راستے پرچلتے رہے اور دف پہنچے ۔اب صبح ہوچکی تھی ۔ مسلسل سفر کے بعداب کسی جائے پناہ اور جائے استراحت کی ضرورت تھی۔ چنانچہ ایک پہاڑکی گھاٹی میں آرام فرمایا ۔ یہ راہ ہجرت میں پہلا قیام تھا۔




عسفان شہر کا ایک منظر اور عسفان کنواں
ھجرت کے راستے پرسفر(قسط 5)راہ ِھجرت میں پہلا قیام
صدیق اکبررضی اللّٰہ عنہ کا عشق وعقیدت۔اس قیام کی تفصیل ہم اپنی کتاب ھجرت خیر البشر صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں،روایت صحیح البخاری کی ہے:
حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم مکہ مکرمہ سے چلے ۔مسلسل ساری رات اوردن چلتے رہے ۔دوپہر کے وقت میں نے سایہ کے لئے چاروں طرف نظر دوڑائی تاکہ کچھ دیر سستالیں ۔ دور ایک پہاڑ نظر آیا۔وہاں پہنچے ۔دیکھا کہ اس کا کچھ سایہ ہے ، میں نے جگہ صاف کرکے وہاں پوستین بچھایا۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو وہاں کچھ دیر کے لئے سُلا دیا ،پھرمیں نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی کہ کہیں کوئی ہمارا تعاقب تو نہیں کررہا ۔ اچانک دیکھا کہ ایک چرواہا بکریاں ہانکتا ہوا ہماری طرف آرہا ہے ،شاید اسے بھی سایہ کی تلاش تھی ، میں نے اس سے پوچھا :
تم کس کے غلام ہو ؟ اس نے کسی قریشی کانام لیا جسے میں جانتا تھا ۔میں نے اس سے تھوڑا دودھ لیا ، ٹھنڈا کرنے کے لئے مشکیزے سے میں نے کچھ پانی اس میں ڈالا۔دودھ ٹھنڈا ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بیدار ہوگئے تھے ۔میں نے ٹھنڈا دودھ پیش کیا ۔”فشرب حتی رضیت”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سیر ہوکر دودھ پی لیا تومیری جان میں جان آئی ،خوشی ہوئی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے آرام فرمالیا ۔ دودھ بھی پی لیا ۔ تروتازہ ہوگئے تو پھر میں نے کہا :”قد آن الرحیل یا رسول اللّٰہ ”:یارسول اللّٰہ ![صلی اللّٰہ علیہ وسلم] کوچ کا وقت ہوگیا ۔ فرمایا: ‘اچھا’ ۔ پھر ہم اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔
سفرہجرت کے عظیم دوست کی وفاداری وجاں نثاری کے کیا کہنے !وہ اپنا آرام،کھانا ،استراحت سب بھول گئے ۔محبوب دوست صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہیں اپنی جان سے بھی بڑھ کرپیارے تھے۔حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کے پاس ایک بھاری امانت تھی ، اس لئے اپنی ذمہ داری کا انہیں خوب احساس تھا ۔ سفر طویل کی مشقت کے بعد جب قیام ہوا تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو سُلا کر اِرد گرد کاجائزہ لینے نکل پڑے ،”ھل أری من الطلب احداً”کہ کہیں کوئی ہمارا تعاقب تو نہیں کررہا۔
واقعی! وہ جوانی کے دوست ۔خوشیوں اور غموں کے دوست۔ساتھی بھی غم گسار بھی۔محافظ بھی اور خادم بھی ۔دھوپ ہوتی تو سایہ کرتے ۔ قیام ہوتا تو دودھ ٹھنڈا کرکے اپنے پیارے دوست کو پلاتے۔پھر انہیں دودھ پیتا دیکھ کر جی جی میں خوش ہوتے ۔دوست کو سکھ پہنچانے کے لئے خود کو بھول جاتے ۔وہ اپنا مال ،وقت،عمر ، جائداد،اہل واولاد،گھر،زمین ،جان وروح سب کچھ اپنے آقا ،اپنے حبیب اور پیارے دوست صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر فدا کرکے قربان ہوگئے۔۔۔۔۔۔جی ہاں! سچے عاشق ایسے ہی ہوتے ہیں ۔رضی اللّٰہ تعالی عنہ ۔(ھجرت خیر البشر صلی اللّٰہ علیہ وسلم ص ١١٧۔١١٨)
جس جگہ پر قیام ہوا،اور جس چٹان کے سائے میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے استراحت وآرام فرمایا ،کچھ لوگوں کے ہاں وہ چٹان آج کل صخرہ کے نام سے مشہور ہے ۔جدہ میں مقیم ہمارے کچھ احباب(بھائی آفتاب فہیم صاحب،بھائی معین الدین صاحب اوربھائی صادق علی صاحب) اس چٹان تک پہنچے اور اُنہوں نے اس کی تصاویر شیئر کی ہیں ۔لیجئے اس چٹان کے مختلف مناظر آپ بھی دیکھیں۔یہ دو قسم کی چٹانیں ھیں۔کچھ باحثین نے ایک،اور کچھ نے دوسری کے بارے میں کہا ھےیہ سفر ھجرت کی استراحت گاہ تھی۔زیادہ قرین قیاس بڑی چٹان ھے۔الشنقیطی رح نے بڑی چٹان کو استراحت گاہ قرار دیا ھے۔

ھجرت کے راستے پرسفر(قسط 6) یہ شخص مجھے راستہ دکھانے والا ہے
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ مشہور آدمی تھے ۔تجارت کے سلسلے میں اِدھر اُدھر سفر کرتے رہتے تھے ۔اس لئے بہت سے لوگ ان کو جانتے تھے ۔ راستے میں کوئی ان سے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھتا ،یہ کون ہیں ؟تو ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ جواب میں کہتے :”یہ شخص مجھے راستہ دکھانے والا ہے ”۔۔ سننے والا یہ سن کر مطمئن ہوجاتا کہ یہ راہبر ہے ۔مگرحضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ اس سے یہ مطلب لیتے تھے کہ یہ مجھے خیر اور بھلائی کے راستے کی ہدایت کرنے والے ہیں ۔
لسان العرب میں ہے :”لقیہ رجل بکراع الغمیم۔فقال من انتم؟”جب ہم کراع الغمیم(کے قریب )پہنچے تو ایک شخص ملا اور اس نے پوچھا تم کون ہو؟تو ابوبکرصدیق رضی اللّٰہ عنہ نے ایسا ہی جواب دیا ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ سے کہہ دیا تھا کہ جو بھی آکر کچھ پوچھے تو تم ہی اسے نمٹاتے رہنا ۔
کراع الغمیم ۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان مشہور جگہ ہے ۔اس مقام سے متعدد بار آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا گزر ہوا۔حدیبیہ سے واپسی پر اس علاقے میں سورۃ فتح کا نزول ہوا۔ آج کل اس کو”الغمیم،برقاء الغمیم”سے یاد کیا جاتا ہے ۔یہ جگہ عسفان سے پہلے ،مکہ مکرمہ سے تقریباً ٦٠ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔قدیم مکہ مکرمہ روڈ اس علاقے کے گزرتا ہے ۔
طریق ھجرت کے مقامات میں سیرت نگاروں کااختلاف ہے ۔ کراع الغمیم میں سفر ہجرت میں گزر ہوا یا نہیں ؟کچھ حضرات اس کے قائل ہیں کہ کراع الغمیم سے گزرہوا ہے اوربعض حضرات کے بقول اسی علاقے میں بریدہ اسلمی رضی اللّٰہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔(واقعہ آگے آرہا ہے)
وادی قدید میں ام معبد خزاعیہ رضی اللّٰہ عنہا کا خیمہ تھا۔یہ نہایت فراخ دل اورمہمان نواز خاتون تھیں۔ آنے جانے والے مسافروں کی ضیافت کرتیں۔یارانِ ھجرت کا قافلہ چلتے چلتے خیمے میں پہنچااور کچھ زادِ راہ خریدنے کے لئے یہاں قیام کیا۔فیاض خاتون نے خندہ پیشانی سے استقبال کرتے ہوئے افسوسناک لہجے میں کہا: اس وقت تو میرے پاس کچھ بھی نہیں ،کچھ ہوتا تو بن مانگے مہمانی میں پیش کرتی ، بکریاں بھی سب چرنے گئی ہیں ۔خیمے میں ایک بکری تھی ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق دریافت کیا ۔ام معبدرضی اللّٰہ عنہا نے بتایاکہ یہ کمزور اور لاغر ہے ، کمزوری کی بنا پر دوسری بکریوں کے ساتھ چراگاہ تک بھی نہیں جاسکی۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ کی اجازت ہو تو ہم اس سے دودھ نکالیں؟۔کہنے لگیں: میرے ماں باپ آپ پر قربان ،شوق سے نکالیں ۔
دست ِمبارک کی برکت سے اس بکری نے دودھ دینا شروع کیاتو اتنا دودھ دیاکہ پوری ایک جماعت کے لئے کافی ہوسکے۔سب نے پیٹ بھر کے دودھ پیا ۔ آخر میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے نوش فرمایا کہ ساقی کو آخر میں پینا چاہیے ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مزید دودھ نکال کر فیاض خاتون کودیا۔
وادی قدید کا تعارف اور واقعہ ام معبد کی مزید تفصیل ان شاء اللّٰہ اگلی قسط میں۔
یہ تصاویر کراع الغمیم کی ھیں۔

ھجرت کے راستےپرسفر(قسط 7) وادی قدیداورخیمہ ام معبد رضی اللہ عنہا
ھجرت کایہ قافلہ ام معبدرضی اللّٰہ عنہا کی منزل سے آگے روانہ ہوگیا۔ شام کے وقت ابومعبدرضی اللّٰہ عنہ معمول کے مطابق بکریاں ہنکاتے ہوئے گھر پہنچے ۔ یہاں کا منظر ہی کچھ اور تھا۔معطرفضا ۔وہ مبارک انسان تو روانہ ہوچکے تھے ،مگران کے قدموں کی خوشبو ابھی تک آرہی تھی ۔ برتن پر نظر پڑی تو وہ دودھ سے لبالب بھرا ہوا۔ابومعبدرضی اللّٰہ عنہ حیران رہ گئے کہ گھر میں تو صرف دبلی پتلی اور مریل سی بکری تھی اوریہ اتنا سارا دودھ؟
ام معبد رضی اللّٰہ عنہا نے پورا قصہ سنایا: ابومعبدرضی اللّٰہ عنہ کہنے لگے:”بخدا!میرا خیال یہ ہے کہ یہ وہی قریش کے آدمی ہیں ،جن کی تلاش میں وہ مارے مارے پھر رہے ہیں۔آپ ذرا مجھے ان کا حلیہ توبتائیں”۔۔۔۔۔۔ام معبد رضی اللّٰہ عنہا نے بڑے دل کش انداز سے پیکر حسن وجمال کی تصویر کشی کی ۔
تفصیل سے ام معبدرضی اللّٰہ عنہا نے حلیہ مبارک بیان فرمایا ،یہ دلیل ہے اس بات کی کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اُن کے ہاں کافی دیر قیام فرمایا ہوگا ۔ ورنہ دوچار منٹ کی مجلس میں کوئی تھوری اتنی خوبیاں گنوا سکتا ہے۔
نبی مبارک صلی اللّٰہ علیہ وسلم ام معبد رضی اللّٰہ عنہا کے پاس سے ہوتے ہوئے منزل بہ منزل مدینہ منورہ کی طرف بڑھ رہے تھے ۔مکہ مکرمہ میں قریش کو کچھ پتہ نہ تھا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے ساتھی ابوبکررضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ کس سمت چل نکلے ہیں اور کہاں تشریف لے گئے ہیں ۔ اچانک مکہ مکرمہ میں ایک پکارنے والے کے اشعارسنائی دئیے ۔ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قول نقل کیا کہ وہ ایک جن کے اشعار تھے(إذ أقبل رجل من الجن من أسفل مکۃ) آواز تو سب سن رہے تھے ،مگر وہ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ لوگوں نے بڑی توجہ سے سننا شروع کیا ۔وہ کہہ رہا تھا:پہلا شعر یہ ہے:
جزی اللّٰہُ ربُّ الناسِ خیرَ جزائِہ۔۔۔رفِیقَینِ حلاَّ خَیْمتَی أمَّ معبدِ
لوگوں کا پروردگار ان دودوستوں کو جزائے خیر دے جو ام معبد کے خیمے میں اُترے۔(مکمل اشعار بمع ترجمہ کے لئے دیکھئے ہماری کتاب ھجرت خیر البشر صلی اللّٰہ علیہ وسلم)
واقعہ ام معبدپر بعض لوگوں نے کلام کیا ہے ،کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اُن کے خیمہ میں نہیں ٹھہرے ۔ہم نے اپنی کتاب میں اس پر تفصیلی کلام کیا ہے(ص ١٢٩تا ١٣٤)اور تقریباً اکثر سیرت نگاروں نے واقعہ ام معبد کا ذکر کیا ہے ۔
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کو سفر کرنے والے حضرات راستے میں وادی قدیدکابورڈ لکھا ہوا کئی جگہ دیکھتے ہیں۔وادی قدید کے نام سے ایک شہر بھی ہے ۔ بلکہ اس کے آس پاس کے علاقے کانام بھی وادی قدید ہے ۔اس کے تحت پھر کئی بستیاں ہیں ۔مکہ مکرمہ سے شمال کی طرف تقریباً130کلومیٹر کے فاصلے پراس کا محل وقوع ہے ۔وادی قدید کی شہرت ام معبد رضی اللّٰہ عنہا کے خیمہ سے ہوئی ۔اس نیک خاتون نے کائنات کے افضل مسافر ،مہاجرنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی میزبانی کی ۔اللہ تعالیٰ نے اس کانام ،اس کا مقام سب محفوظ رکھا ہے ۔جدّہ میں مقیم اپنے دوست بھائی ابو بلال محمد یوسف صاحب کے ساتھ (2009ء میں)ہم نے خیمہ ام معبد کے مقام کی تلاش کی ۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جاتے ہوئے وادی قدید سے آگے بائیں ہاتھ پرمین روڈسے دوتین کلومیٹر کے فاصلے پر چھوٹی سی بستی ”ملح” آتی ہے ۔ملح نامی بستی سے مغربی طرف ساحل سمندر کی طرف ام معبد کا خیمہ تھا۔
ملح بستی سے شمال کی طرف “المشلل”ھے۔یہ مشہورحرہ (پتھریلا علاقہ)چھوٹا سا پہاڑھے ، اس کو قدیدیہ بھی کہتے ہیں ۔واد ی قدید سے آگے بستی” ملح” میں جب ہم پہنچے اوروہاں کے باشندو ں سے پوچھا :”أین المشلل”مشلل پہاڑ کہاں ہے؟ اُنہوں نے سامنے والے کالے پتھروں کے پہاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ، ”ھذا ھو المشلل”یہی مشلل پہاڑ ہے ۔یہ سنتے ہی ہماری تھکاوٹ ختم ہوگئی۔(اس مقام کی تلاش کی تفصیل ھمارے سفرنامہ “آثار حبیب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خوشبو”میں ھے)
وادی قدیداور مشلل پہاڑ سے سیرت کے کئی واقعات متعلق ہیں۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر وادی قدید سے گزرے ۔۔۔۔۔۔حجۃ الوداع کے سفر میں بھی وادی قدید نے قدم بوسی کا شرف حاصل کیا اور سفر ھجرت کی تو کئی یادگاریں یہاں چھوڑ گئے۔
مشلل پہاڑ کے قریب مشرکین کا مشہور بت ”مناۃ” نصب تھا۔ فتحِ مکہ کے موقع پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سعد بن زید رضی اللّٰہ عنہ کی قیادت میں ٢٠ مجاہدین بھیج کر اسے پاش پاش کردیا ۔
مشلل پہاڑ کے تقریباًمغربی جانب مقام” مریسیع ”تھا۔جہاں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم غزوہ مریسیع (غزوہ بنو مصطلق) میں جہاد کے لئے تشریف لائے تھے ۔

ھجرت کے راستے پرسفر(قسط 8 )سراقہ بن مالک کی دنیا بدل گئ،رضی اللّٰہ عنہ
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مکہ مکرمہ چھوڑ جانے کے بعد قریش نے سب راستے ڈھونڈ مارے ۔ جب کچھ کامیابی نہ ہوئی تو اعلان جاری کیا کہ جو محمد (صلی اللّٰہ علیہ وسلم ) یا ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کو قتل یا گرفتار کرے گا اس کو [١٠٠] اُونٹ انعام دیا جائے گا ۔ساحلی علاقوں میں بھی اپنے بندے بھیج کر یہ خبر پھیلادی ۔سراقہ بن مالک اپنی قوم بنو مدلج کی ایک محفل میں بیٹھا ہوا تھا ۔کسی نے اسے آکر بتایا کہ میں نے ساحلی علاقے میں کچھ لوگ اونٹوں پر سوارجاتے ھوئے دیکھے ہیں ۔یہ سن کرسراقہ بغیر کسی کو بتائے چپکے سے نکل پڑا کہ انعام کا مستحق میں اکیلا ہی بنوں۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ خطرہ بھانپ کر چپکے سے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کہا:وہ ایک شخص ھمارا تعاقب۔۔۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تسلی دی:غم نہ کر اے ابوبکر! اللّٰہ پاک ھمارے ساتھ ھے۔سراقہ تعاقب کرتے ہوئے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تواچانک اس کا گھوڑا زمین میں دھنس گیا اور وہ گرگیا۔ چیخ کر کہنے لگا:محمد!(صلی اللّٰہ علیہ وسلم)یہ آپ کی بد دعا سے ہوا ہے ۔میرے لئے دعا کریں۔بخدا میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ جو شخص آپ کو تلاش کرتا ہوا ملے گا اس کو واپس کردوں گا ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دعا سے اس نے نجات پائی۔وہ واپس ہوگیا، مگر انعام کی لالچ میں پھر پلٹا پھراس کے ساتھ وُہی ہوا۔پھر اس کی درخواست پر آپ صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے اسے امن کی تحریر لکھ دی ۔وہ رخصت ہونے لگا تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نےفرمایا:
‘ ‘اے سراقہ! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے؟”
سراقہ نے حیران ہوکر پوچھا: ” کسریٰ بن ہرمز کے؟ ”۔۔۔۔۔۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:” ہاں”۔
سراقہ بن مالک واپس آیا ۔اس کے دل میں بیسیوں خیالات آتے ہوں گے۔۔۔۔۔۔محمد بن عبد اللّٰہ[صلی اللّٰہ علیہ وسلم] عجیب شخص ہے ۔اپنے خاندان سے چوری چھپے ہجرت کرکے جارہا ہے ۔اُسے تعاقب کرنے والوں کا خوف بھی ہے ۔ مکہ والوں کے پہنچ جانے کا ڈر بھی ہے ۔خفیہ طریقے سے انجان راستے پرمسافر مہاجر بن کر گامزن ہے۔اس صورتحال میں وہ پیشین گوئی کررہا ہے کہ ‘سراقہ!تم سپرپاور سلطنت کے سربراہ کسریٰ کے کنگن پہنو گے’یا للعجب!(نہایت حیران کن بات ہے) مگر اسے اس پیشین گوئی کامکمل یقین تھا ،کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے معجزہ کا مشاہدہ کرچکا تھا ۔وہ جانتا تھا کہ مستقبل محمد بن عبد اللّٰہ[صلی اللّٰہ علیہ وسلم] کا ہے ۔
پھر جب اس نے یہ اطمینان کرلیا کہ محمدبن عبد اللّٰہ [صلی اللّٰہ علیہ وسلم] اپنی محفوظ منزل تک پہنچ گئے ہوں گے ،تو اس نے یہ سارا واقعہ کھول دیا ،جو جنگل میں آگ کی طرح پھیل گیا ۔ ہر محفل اور تقریب میں اب یہی واقعہ زیر بحث ہوتا ۔۔۔۔۔۔ رؤساء قریش نے سوچا کہ یہ واقعہ اگر یوں تیزی سے پھیلتا رہا تو ہمارے کئے کرائے پر پانی پھر جائے گا ۔تمام لوگ محمد بن عبد اللّٰہ[صلی اللّٰہ علیہ وسلم] کی صداقت کے معترف ہو جائیں گے ،پھرہمارا کیا بنے گا؟۔۔۔۔۔۔ یہی سوچ کر قریش کے سردار ابوجہل نے سراقہ کی قوم بنو مدلج کو دھمکی آمیزخط لکھا۔
سراقہ تک ابوجہل کی یہ باتیں پہنچیں تو اس نے ابوجہل ملعون کو دندان شکن جواب دیتے ہوئے یہ اشعار کہے :اس کے آخری دو اشعار کا ترجمہ یہ ہے:
میری مانو تو سنوتم خود بھی اس کی مخالفت سے باز آجاؤ اور لوگوں کو بھی منع کرو،کیونکہ مجھے یقین ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ان کی کامیابی کے نشانات اس طرح چمک جائیں گے کہ تمام انسان اس کی تمنا کریں گے کہ کاش ہم ان سے صلح کرلیتے۔
وقت تیزی سے گزرگیا۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حنین وطائف سے فارغ ہوکر جعرانہ پہنچے تو سراقہ بن مالک امن کی تحریر ہاتھ میں لئے آگئے۔رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:((ألیوم یوم الوفاء و البر،أدن))آج وفائے عہد اور خوشخبری کا دن ہے ،قریب ہوجاؤ۔۔۔۔۔۔سراقہ قریب ہوئے اوراسلام قبول کرکے ابدی سعادت حاصل کی۔رضی اللّٰہ تعالی عنہ ۔
پھرتاریخ نے بہت جلد رُخ پلٹا ۔ خلیفہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں کسریٰ فارس نے مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھائی ۔اس کا تاج ،قالین ، تخت،کنگن وغیرہ مدینہ منورہ پہنچائے گئے ۔کسریٰ کے کنگن دیکھتے ہی فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ کو امام المہاجرین صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی یاد آئی ۔ فوراًسراقہ بن مالک رضی اللّٰہ عنہ کو بلا یا۔ان کے بازوؤں پر گھنے بال تھے ۔فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ نے انہیں کنگن پہنائے اور فرمایا،کہو:
”اللّٰہ اکبر!الحمد للّٰہ الذی سلبھما کسریٰ بن ہرمز، وألبسھماسراقۃ بن جعشم أعرابیامن بنی مدلج۔۔۔۔۔۔ اللّٰہ اکبر!تمام تعریفیں اس اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ،جس نے کسریٰ بن ہرمز سے یہ کنگن چھین کر بنو مدلج کے ایک دیہاتی سراقہ کو پہنائے۔”(واقعہ کی مکمل تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب ھجرت خیر البشر صلی اللّٰہ علیہ وسلم ص ١٣٤ تا ١٣٩)
سراقہ بن مالک کہاں آکر ملا ؟ایک قول کے مطابق المشلل پہاڑ کے قریب یعنی وادی قدید میں۔ آج کل کے چند باحثین ومحققین نے اسی کو اختیار کیا ہے ۔بقول شیخ بلادی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور زیادہ تر سیرت نگاروں نے ، سراقہ بن مالک ‘وادی کلیہ’ میں یا اس کے قریب قریب آکر ملا۔یہ وادی ثنیۃ المشلل کے بعد پڑتی ہے ۔
محمداحسان قریشی صاحب نے “موقع سراقہ بن مالک ” کے تقریبی مناظر شیئر کئے ہیں اور کہتے ہیں:
Approximate location of Suraqah bin Malik r.a…. yet , no one knows exact location..



ھجرت کے راستے پرسفر(قسط 9) مسافرانِ ھجرت جحفہ میں
وادی کلیہ اور سراقہ بن مالک رضی اللّٰہ عنہ کے واقعہ کے بعدہجرت کے مسافر جحفہ پہنچے۔بقول عبد اللّٰہ القاضی یہ ٦ربیع الاوّل منگل کا دن تھا ۔بقول بلادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مشرقی سمت سے رات کے وقت جحفہ کو عبور کیا۔ مکہ مکرمہ کی طرف جانے والے معروف راستے پر نظر پڑی تو بیت اللّٰہ اور وطن کی یاد سے دل بھر آیا۔اسی وقت جبریل علیہ السلام وحی لے کر تشریف لے آئے: إِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْْکَ الْقُرْآنَ الخ۔۔ جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بشارت دی گئی کہ مکہ مکرمہ سے جدائی چند روزہ ہے ، عنقریب آپ کو پھر مکہ مکرمہ پہنچایا جائے گا ۔یہ فتح مکہ کی بشارت تھی ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ۔محض آٹھ سال ہی گزرے تھے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں فاتحانہ انداز سے داخل ہوئے ۔ایک وقت تھا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور کیاگیا ،آج وہی مکہ والے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے رحم وکرم پر ہیں ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو مکہ والوں کا ستانا۔۔۔۔۔۔ٹھٹھا کرنا ،مذاق اڑانا،اذیتیں دینا،بلال، خباب ،آل یاسر رضی اللّٰہ عنہم اور دوسرے اصحاب رضی اللّٰہ عنہم پر بیتے ہوئے ظلم وستم کے لمحات سب یاد تھے ،مگرآپ نے امن ِعام کا اعلان فرماتے ہوئے سب کو معاف فرما دیا ۔صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
جحفہ کسی زمانے میں بڑا آباد شہر تھا ۔مسجدمیقات سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر آج بھی اس قدیم آبادی کے آثار کھنڈارت کی شکل میں باقی ہیں ۔یہاں ایک بڑا قلعہ تھا،جسے اہل علاقہ قصر علیا کانام دیتے ہیں ۔اس قلعے کی کچھ باقیات اب بھی دیکھی جاسکتی ہیں ۔مصر وشام کے مسافروں کی یہ منزل تھی ۔ یہاں قافلے ٹھہرتے ،زاد راہ لیتے،قیام کرتے پھر آگے چلتے ۔ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس مقام کواس سمت سے آنے والے حجاج کے لئے ‘میقات’ قرار دیا ۔البتہ جب نئی سڑک جحفہ سے ہٹ کر بنی تو اس کی آبادی بھی ختم ہوگئی۔اب جحفہ میں کوئی خاص آبادی نہیں ہے ۔ مسجد میقات کے قریب اِکا دُکا دکانیں ہیں ۔جہاں احرام،چائے وغیرہ مل جاتی ہے ۔
جحفہ وہی جگہ ہے جس کے لئے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بددعا کی تھی :’ اے اللّٰہ! مدینہ منورہ کے بخار کو جحفہ منتقل کردے ‘۔۔۔۔۔۔اورپھر ایک دن آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میں نے خواب میں دیکھاکہ ایک عورت پراگندہ بکھرے بالوں والی مدینہ منورہ سے نکلی اور مھیعۃ(جحفہ ) چلی گئی ۔میں نے اس کی یہی تاویل کی کہ بخار وہاں منتقل ہوگیا۔”اُس وقت اس جگہ کفار آباد تھے۔ یہاں سب سے زیادہ بخار پایا جاتا تھا۔
شاہراہ مکہ مکرمہ پرجحفہ میقات کی راہنمائی کے لئے بورڈ نصب ہے ۔جحفہ خط سریع (جدید راستہ جو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کو جاتا ہے)سے ہٹ کر واقع ہے۔ اس لئے خط سریع سے نکل کر چھوٹی سڑک کے ذریعے میقات جحفہ آنا پڑتا ہے۔ستمبر2009ء میں ہم اپنے ہم سفر دوست ابو بلا ل محمد یوسف کے ساتھ عصر کے وقت میقات الجحفہ پہنچے ۔کچھ لوگ مسجد میقات سے احرام باندھ رہے تھے ۔ہم نے مسجد میقات کی زیارت کی۔لیجئے آپ بھی الجحفہ(قدیم وجدید) کے مناظر ملاحظہ فرمائیں ۔

ھجرت کے راستے پرسفر(قسط 10) وادی الخرارمیں سفید لباس کا تحفہ٭
جحفہ کے بعدمہاجر نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اگلی منزل وادی الخرار تھی۔ بقول محمد یاسر الدجوی (مسار الھجرۃ النبویۃ)قافلہ ہجرت سفر کے دوسرے دن وادی الخرار پہنچا،جہاں غدیر خم ہے ۔رات وہیں گزاری ۔غار ثورسے وادی الخرار تک تقریبا ١٦٠ کلومیٹرکافاصلہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دودن میں طے کیا ۔بقول عید الیحیی ٰآپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے رات جحفہ میں گزاری ۔صبح کے وقت تقریبا ٤ کلومیٹر کا فاصلے طے کرکے وادی الخرار پہنچے۔یہ سات ربیع الاول بدھ کا دن تھا۔
وادی الخرار میں حضرت طلحہ رضی اللّٰہ عنہ کچھ ساتھیوں کے ساتھ شام سے آرہے تھے ،جو تجارت وغیرہ کی غرض سے گئے تھے ۔ اُنہوں نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کو سفید کپڑے پہنائے ۔اس موقع پر طلحہ رضی اللّٰہ عنہ کا یوں پہنچنا اور پھر عمدہ کپڑے پہنانا بہت خوشی کا باعث بنا ۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ لباس کا تحفہ دینے والے حضرت زبیر رضی اللّٰہ عنہ تھے ۔۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے کہ دونوں نے لباس کا تحفہ دیا ہو ۔ دونوں اس قافلے میں ہوں۔پھر مسافران ہجرت مدینہ منورہ کی طرف اور طلحہ وزبیر رضی اللّٰہ عنہما مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوگئے ۔
صحیح بخاری میں ہے ‘فبصر برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم و أصحابہ مبیضین’۔۔۔۔۔۔ قبا میں داخل ہوتے وقت مسلمانوں نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب کو سفید لباس میں ملبوس دیکھا ۔
وادی الخرار اورپھر غدیر خم سے گزرتے ہوئے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ماء احیاء پہنچے اور ثینۃ المرۃ سے ہوتے ہوئے شمال کی طرف چلے۔شیخ بلادی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے وادی الخرارمیں دائیں طرف مشرق میں چلنا شروع فرمایا ۔ غدیرخم سے ہوتے ہوئے وادی مرمیں چلتے رہے ۔یہاں تک کہ وادی حیاء میں پہنچے ،اسی کے قریب کنویں تھے ،جو بئار المرۃ سے مشہور تھے (یہی جگہ قدیم کتابوں میں ثنیۃ المرۃ کہلاتی تھی)۔
آج کل ‘وادی الخرار ‘کا یہ نام تواتنا معروف نہیں ہے ،البتہ مختلف مقامات پر اس وادی کے مختلف نام ہیں ،مثلاً اس کے اعلی حصہ کو جو غدیر خم تک ہے’الخانق’ کہتے ہیں ، پھرآگے اس کا نام ‘الحلق ‘ ہے اور جب جحفہ کے قریب پہنچتی ہے تو اس کانام ‘وادی الجحفۃ’ ہے۔
ذی قعدہ ١ھ میں الخرار کے علاقے میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کو بیس مجاہدین کے ساتھ قریش کے ایک قافلہ پر حملہ کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ مگر ان حضرات کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ قافلہ الخرارسے گزر چکا تھا ۔یہ واقعہ ‘سریۃ الخرار’ سے مشہور ہے۔
مقام ‘غدیر خم’ کو سیرت کے اعتبار سے کافی اہمیت حاصل ہے ۔اس جگہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع سے واپسی پر خطبہ دیتے ہوئے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے فضائل ومناقب بیان فرمائے تھے ۔
ثنیۃ المرۃ اور ماء احیاء ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔ثنیہ المرۃ سے اسفل (نیچے کی طرف ) ماء احیاء ہے ۔یہاں تقریبا ہر وقت پانی موجود رہتا ہے اس لئے ”ماء احیاء ”سے مشہور ہے ۔ ہجرت کے آٹھ ماہ بعدشوال ١ ھ میں عبیدہ بن الحارث رضی اللّٰہ عنہ کی قیادت میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تقریبا ً ساٹھ مہاجرین کا ایک دستہ مشرکین قریش پر حملہ کرنے کے لئے روانہ فرمایا۔یہ حضرات ثنیۃ المرۃ کے قریب چشمہ ‘احیاء’ پر پہنچے ۔اس سریہ میں چونکہ محض تجسس اور مشرکوں سے نوک جھوک مقصود تھی۔اس لئے جنگ کی نوبت نہیں آئی۔البتہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ سے صبر نہ ہوسکا اورانہوں نے ایک تیر چلا ہی دیا ۔یہ اسلام میں پہلا تیر تھا جو راہِ خدا میں چلا یا گیا۔


ماء احیاء کی تصاویر
ھجرت کے راستے پرسفر(قسط 11)وادی لقف ومجاح ٭
ثنیۃ المرۃ ٹیلہ سے گزر کر قافلہ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وادی لقف میں سات کلومیٹر چلا ،یہاں تک مدلجہ لقف پہنچا۔المدلج کے لغوی معنی ہیں :’کنویں اور حوض کے درمیان کا راستہ’۔۔۔۔۔۔ یہاں ہم یہ معنی کر سکتے ہیں : ”کسی وادی میں پانی بہنے کا راستہ’ ‘،مدلجہ لقف کا طول ١٩٢٠ میٹر ہے ۔پھر مدلجہ مجاح میں سفر ہوا ،مدلجہ مجاح کا طول ٤٣٠٠ میٹر ہے ۔پھر آگے وہ مقامات آئے جو آپ نقشہ میں دیکھ سکتے ہیں ۔
تعھن کے بارے میں علامہ سہیلی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں :تعھن میں ایک چٹان ہے ۔اس کو ‘أم عقْی’ کہا جاتا ہے ۔یہ اصل میں ایک عورت کانام ہے ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہاں سے گزرے تو اس عورت سے پانی مانگا۔ اس نے پانی دینے سے انکار کردیا ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بددعادی جس سے وہ عورت چٹان کی شکل اختیار کرگئی ۔
علامہ سہیلی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں ‘فیما یذکرون’ یہ بات لوگوں میں مشہور ہے،یعنی یہ صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے ۔لوگوں میں مشہور ہے ۔اور لوگ پتہ نہیں کیا کیا مشہور کرتے رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سہیلی رحمہ اللّٰہ کی کتاب پر تحقیق وتخریج کرنے والے محقق ‘مجدی بن منصور بن سید الشوری’ فرماتے ہیں:’قصۃ دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی المرأۃ ،فمسخت صخرۃ ،فی حاجۃ الی دلیل صحیح رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بددعا سے عورت کا چٹان کی شکل میں مسخ ہوجانا ،یہ قصہ دلیل صحیح کا محتاج ہے۔
مدلجہ تعھن میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ایک مسجد کا ذکرملتا ہے کہ یہاں نماز پڑھی تھی۔
البلادی رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے سفر ‘علی طریق الہجرۃ’ میں اس علاقہ سے گزرے اور یہاں کی ایک وادی کے بارے میں لکھا:
”میں دن کے ایک بجے وادی مافر کی ایک گھاٹی میں نماز ظہر کے لئے اترا۔مجھے وہاں کوئی ایسی ہموار زمین نہیں ملی جہاں کوئی انسان نماز پڑھ سکے ۔بس پتھر ہی پتھر ہیں ، حتی کہ درخت بھی پتھروں میں اُگے ہوئے ہیں ۔دائیں بائیں دیو ہیکل پہاڑ ہیں ۔ یہاں کوئی بدبخت ہی رہائش رکھ سکتا ہے۔ لقف اور مجاح بھی ایسی ہی زمین ہے ۔ محمد بن عروۃ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ نے کیا اشعار کہے :
لعن اللّٰہ بطن لقف مسیلا۔۔ومجاحا ،وما أحب مجاحا۔۔لقیت ناقتی بہ وبلقف۔۔بلدا ًمجدبا ًوأرضا ًشحاحا
بطن لقف اور مجاح کو اللّٰہ تعالیٰ نے خیر سے محروم رکھا ہے ۔مجھے تو مجاح بالکل پسند نہیں،کیونکہ میں لقف ومجاح میں اپنی اونٹنی لے گیا ۔یہ تو بس بنجر اور بخیل زمین ہے ۔
البلادی رحمہ اللّٰہ راہِ ہجرت کے اس علاقے کے لوگوں سے بڑے خوش اور معلومات دینے کے اعتبار سے اِن کے بڑے شکر گزار نظر آتے ہیں۔اس خشک وبنجر زمین کے مکینوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
”اس(مجاح ولقف)علاقے کے لوگ طبیعت کے بڑے نرم، قول کے پکے سچے ہیں ۔کسی اجنبی پردیسی کا مذاق نہیں اڑاتے ۔بغیر تصنع وبناوٹ کے بات کرتے ہیں۔ میں جزیرۃ العرب کے کئی علاقوں اردن،لبنان، شام ،فلسطین میں گھوما پھرا ہوں۔ بہت سے لوگ معلومات دینے میں بخل کرتے ہیں۔علاقوں کے نام و حالات چھپاتے ہیں ،مگر یہا ں کے لوگ ایسے نہیں ۔(علی طریق الھجرۃ)
بہرحال ایک تو ان مقامات کا جغرافیہ ہے کہ یہاں کی زمین سخت ہے ،کچھ اُگاتی نہیں وغیرہ اور ایک ہے ان کی نسبت ،کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہاں سے گزرے ،یہاں کے ذرات نے قدمین مبارک کی قدم بوسی کی ۔اس نسبت سے ہمیں یہاں کے ذرّہ ذرّہ ،پتھر پتھر اور وادی وادی سے محبت ہے ۔

ھجرت کے راستے پرسفر(قسط 12) نبی مہاجر صلی اللّٰہ علیہ وسلم وادی القاحہ سے گزرتے ہیں ٭
نبوی قافلہ ” العبابید،الغثریانۃ” سے گزرا ۔( بعض حضرات کے بقول العبابیدکو العثیانہ بھی کہا جاتا ہے،صحیح نام الغثریانۃ ہے)یہ وادی القاحہ کاایک درّہ یاراستہ ہے ۔اس میں تقریبا تین کلومیٹر سفر کرنے کے بعد قافلہ نبوی وادی القاحہ میں اُترا اورکوئی ٣٢ کلومیٹر سے زیادہ اس وادی میں سفر ہوتا رہا ۔ سفر کا چوتھا دن اسی وادی میں پورا ہوگیا ۔یہ یوم الخمیس اور ٨ ربیع الاول کا دن تھا ۔اس مبارک ومقدس وادی میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا سفرہجرت ہوا۔ سفرہجرت کے علاوہ بھی متعدد بار رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہاں سے گزرے ۔حضرت ابو قتادہ رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں : ہم آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ،جب القاحۃ پہنچے ،تو ہم میں سے کچھ صحابہ احرام میں تھے اور کچھ احرام میں نہیں تھے ۔یعنی انہیں مکہ مکرمہ کی طرف نہیں بلکہ کسی اور طرف جانا تھا۔اس لئے انہوں نے احرام نہیں باندھا ۔
ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما فرماتے ہیں :آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے روزے کی حالت میں القاحۃ میں پچھنے لگوائے ۔ایک روایت میں ہے کہ پچھنے لحی جمل میں لگوائے۔لحی جمل بئر طلوب سے ایک میل کے فاصلے پر ہے ۔
مکہ مکرمہ سے ٢٣٢ کلومیٹر اور مدینہ منورہ سے ١١٦ کلومیٹر کے فاصلے پر”وادی القاحہ ”حجاز کی ایک طویل ترین وادی ہے ۔حجاز کی وادیاں عام طور پر مشرق سے مغرب کی طرف چلتی ہیں مگر باقی وادیوں کے برعکس یہ وادی جنوب کی طر ف چلتی ہے ۔شیخ بلادی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:’قلیل الزراعۃ وکثیر الذکر فی کتب المتقدمین’ ،اس وادی میں زراعت کم ہوتی ہے مگر متقدمین کی کتابوں میں بکثرت اس کا ذکر ہے ۔چونکہ یہ وادی دو بڑے بڑے پہاڑی سلسلوں کے درمیان گزرتی ہے،اس لئے اس کی پانی کی روانی بہت تیز ہوتی ہے ۔شدید بہاؤ کی وجہ سے سب کچھ اکھیڑتی جاتی ہے اور زمین کو بھی قابل زراعت نہیں چھوڑتی۔’القاحۃ’ کا ذکر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے طریق ِہجرت ،سفر ِحج بلکہ مکہ مکرمہ سمت کے اکثر اسفار میں آتا ہے ۔کیونکہ یہ درب الانبیاء(مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان کا راستہ جس پر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام بھی چلاکرتے تھے ) پر پڑتی ہے۔صدیوں تک حجاج وزائرین وادی القاحہ والے اس راستے پر چلتے رہے۔ ١٣٧٠ھ تک یہی راستہ استعمال میں رہا ،پھر موٹروں کا زمانہ آیا تو براستہ بدر سڑک نکالی گئی اور اس راستے کو چھوڑ دیا گیا ۔
ویسے تو القاحہ ایک بڑی وادی کانام ہے مگروادی کے آس پاس کے بڑے علاقے کو بھی القاحہ کہاجاتاہے ۔”بئر قیضی” القاحہ کا مرکز ہے ۔اصل میں یہ ایک کنویں کانام ہے ۔جو وادی القاحہ کے دائیں حصہ میں پڑتا ہے ۔قبیلہ عوف کے ایک شخص’ قیضی ‘نے یہ کنواں کھدوایا تھا ۔اس لئے اُسی کے نام سے یہ مشہور ہوا۔ اب ایک چھوٹے سے قصبہ کانام ہے ،جسے القاحہ علاقے کا مرکز کہا جاتا ہے ۔مدینہ منورہ کی سمت سے آنے والے حجاج کے قافلے الحفاۃ(الطلوب ) میں قیام کرتے تھے ۔اگر وہاں رش ہوجاتا تو کچھ قافلے ‘الطلوب’ سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ‘بئر قیضی’ میں آکر پڑاؤ ڈالتے ۔یوں یہ مقام آباد ہوگیا، پھر جب گاڑیوں کا زمانہ آیا اور قافلوں نے یہ مشکل راستہ چھوڑ دیا تو ان علاقوں کی بھی کوئی اہمیت نہ رہی ۔
وادی القاحۃ کے شروع میں قدیم کنواں بئر طلوب ہے۔ اس کنویں کے تقربیا بیس گز کے فاصلے پر حضرت نضلہ بن عمرو رضی اللّہ عنہ کی قبر مبارک ہے۔ یہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں “صفراء “میں کچھ زمین بطور جاگیر عطا فرمائی۔اس کنویں کا ذکر احادیث میں بھی آیا ہے ۔ایک روایت میں ہے کہ حضورصلی اللّٰہ علیہ وسلم فتح مکّہ کے سفر میں وادی عرج سے چلے تو بئر طلوب کے آس پاس آپ نے ایک کتیا کو اپنے بچوں کو دودھ پلاتے دیکھا تو ایک صحابی کی ڈیوٹی لگائی کے وہ یہاں رکیں اور لشکر اسلام کو اپنا راستہ بدلنے کا اشارہ کریں کہیں کتیا کے بچے ڈر نہ جائیں۔
ہمارے بہت ہی محترم دوست بھائی آفتاب فھیم صاحب جو مقامات سیرت وآثار نبوی کے سچے عاشق ہیں ۔اُنہوں نے طریق الھجرۃ پر سفر کیا ۔اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں :
طریق الھجرہ کے مقامات کرہ ارض کے خوبصورت ترین مقامات ہیں۔ان واديوں کا نور رسول الله صلى الله عليه وسلم كى بركت سے آج تک ویسا هی هے جیسا اس دن تها جب آپ نے یہاں کا سفر کیا.طریق الہجرۃ کی نورانیت سب سے اعلی وارفع ھے۔ اس سے اُوپر کچھ نہیں۔اس کی منازل اس کائنات کی مقدس ترین منازل ہیں.یہ وہ مقدس مقامات ہیں جہاں آج تک صرف گنتی کے چند لوگ ہی پہنچ سکے ہیں۔جتنا وہاں داخل ہونا مشکل ہے، اس سے کہیں زیادہ وہاں سے باہر نکلنا کٹھن ہے۔خاص کر وادی مجاح جس کا سفر الجداجد پر جاکر ختم ھوتا ھے۔
بئر طلوب اور وادی القاحہ


ھجرت کے راستے پرسفر(قسط 13) بریدہ بن الحصیب اسلمی رضی اللّٰہ عنہ آغوش اسلام میں
سو[١٠٠] اونٹوں کے انعام کی بات توشہرت پاچکی تھی ۔بریدہ اسلمی رضی اللّٰہ عنہ بھی انعام حاصل کرنے کی امید میں اپنی قوم کے ٧٠یا٨٠ آدمیوں کے ساتھ راستے میں قافلہ ھجرت کی تلاش میں تھے ۔وہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔ قریب پہنچے ۔رات کا وقت تھا ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بریدہ سے پوچھا :((من أنت))تم کون ہو؟
اس نے کہا : بریدہ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ سے بطور نیک فالی کے فرمایا:((برد امرنا وصلح)) ہمارا معاملہ ٹھنڈا اور ٹھیک ہوگیا۔ (بریدہ،برد سے ہے جس کے معنی ہیں ٹھنڈک)
پھر پوچھا :کس قبیلہ سے ہو؟
اس نے کہا :قبیلہ اسلم سے ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پھر بطور نیک فالی کے فرمایا:((سلمنا)) ہم سلامت رہے ۔
پھر پوچھا : قبیلہ اسلم کی کس شاخ سے ہو ؟
کہا: ‘بنو سہم سے’ ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خرج سھمک)) (سھم حصہ کو کہتے ہیں، تیرا حصہ نکل آیا ،یعنی تجھے اسلام سے حصہ ملے گا )
بریدہ نے پوچھا : آپ کون ہیں ؟
فرمایا: ((انامحمد بن عبد اللّٰہ رسول اللّٰہ))
بس اتنی سی بات سے بریدہ اسلمی رضی اللّٰہ عنہ کی دنیا بدل گئی ۔اسلام لے آئے ۔ساتھ میں جنگجوؤں کاپورا دستہ بھی مسلمان ہوگیا اور سب کے سب اسلام کے جانباز مجاہد بن گئے۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پیچھے عشاء کی نماز پڑھی ۔رضی اللّٰہ تعالی عنہم۔ بریدہ رضی اللّٰہ عنہ نے اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ ہماری قوم کے لوگ بغیر کسی زبردستی کے خود اپنی خوشی سے مسلمان ہوئے ۔بریدہ اسلمی رضی اللّٰہ عنہ کا تعلق قبیلہ اسلم سے تھا ۔یہ قبیلہ حلفاء الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے یاد کیا جاتا ہے ۔ عبد المحسن بن فلاح اسلمی نے اپنی کتاب ” قبیلۃ بنی اسلم فی الجاہلیۃ والاسلام” میں ایک عنوان بنو اسلم قبیلہ کے صحابہ رضی اللّٰہ عنہم پرقائم کیا ہے اور اس میں بریدہ اسلمی رضی اللّٰہ عنہ کا ذکر نمایاں کیاہے ۔یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان مختلف علاقوں مثلا مریین ،العرج ،الجحفہ ،وادی فرع کے قریب ،وادی الابواء ،وغیرہ میں آباد تھا ،البتہ واکثرھم فی وادی حجر۔ ان کی زیادہ آبادی وادی الحجر میں تھی ۔وادی الحجر کو آج کل ”وادی السائرۃ” کہاجاتا ہے ۔عبد المحسن اسلمی کی اس پر بھی ایک مستقل کتاب ہے ”وادی حجر،وادی السائرۃ ،دراسۃ جغرافیۃ وتاریخیۃ واثریۃ” ۔وادی حجر کا علاقہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان نصف مسافت پر واقع ہے ۔
بریدہ اسلمی رضی اللّٰہ عنہ کہاں آکر ملے ؟ سیوطی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے الدر المنثور میں لکھا ہے : لما ھاجر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من مکۃ الی المدینۃ فانتہی الی الغمیم أتاہ بریدۃ بن الحصیب فاسلم۔جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے کراع الغمیم پہنچے تو بریدہ بن الحصیب رضی اللّٰہ عنہ آئے اور اسلام قبول کیا ۔اس قول کو لے کر بہت سے باحثین نے کہا کہ بریدہ رضی اللّٰہ عنہ کراع الغمیم میں آکر ملے ۔ علامہ صالحی شامی رحمہ اللّٰہ لکھتے ہیں:ولما شارف رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المدینۃ لقیہ ابو عبد اللّٰہ بریدۃ بن الحصیب۔ جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو بریدہ اسلمی رضی اللّٰہ عنہ آکر ملے ۔سمہودی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی خلاصۃ الوفاء میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے قریب ہوئے تو بریدہ اسلمی رضی اللّٰہ عنہ آکر ملے اور اسلام قبول کیا ۔یہی وجہ ہے کہ متعدد سیرت نگاروں نے یہ واقعہ سراقہ بن مالک رضی اللّٰہ عنہ کے واقعہ کے بعد لکھا ہے ،سراقہ بن مالک کا واقعہ کراع الغمیم کے بعد وادی قدید یا وادی کلیہ میں ہوا۔تو بریدہ رضی اللّٰہ عنہ کاواقعہ اُس کے بھی بعد کسی علاقہ میں پیش آیا ۔
روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ صبح کے وقت حضرت بریدہ رضی اللّٰہ عنہ نے کہا :یا رسول اللّٰہ ! جب آپ مدینہ منورہ میں داخل ہوں توآپ کے ساتھ ایک جھنڈا ہونا چاہئے ۔اپنا عمامہ کھول کر ایک نیزے میں باندھا ،پرچم بنایا۔ بریدہ رضی اللّٰہ عنہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے آگے آگے علم بردار بن کرچلنے لگے ۔یہ اسلام کا پہلا پرچم تھا ۔اس پرچم نبوی کو بلند کرنے کی سعادت حضرت بریدہ رضی اللّٰہ عنہ کے حصے میں آئی۔اس طرح کے تمام قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ بریدہ اسلمی رضی اللّٰہ عنہ کا واقعہ کراع الغمیم کے کافی بعدپیش آیاھے ۔البتہ وادی العرج سے پہلے۔کیونکہ آگے مسعوداسلمی رضی اللّٰہ عنہ کا واقعہ آرھاھے۔وہ فرماتے ھیں کہ بریدہ رضی اللّٰہ عنہ مجھ سے پھلے مسلمان ھوئے۔ان کا واقعہ وادی العرج جبل الخذوات کاھےتو بریدہ رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام وادی العرج سے پھلے ھوگا۔۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم۔ واقعہ مذکورہ کی مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب”ہجرت خیر البشر صلی اللّٰہ علیہ وسلم”۔ان تصاویر میں قبائل عرب کے علاقے دکھائے گئے ہیں ،جن میں قبیلہ اسلم کا علاقہ بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔

ھجرت کے راستے پرسفر(قسط 14) وادی العرج
”وادی العرج ”طریق الھجرۃ کا اہم مقام ہے ۔بروز جمعہ ٩ ربیع الاول اس وادی میں سفر ہوا ۔یہاں اسلم قبیلہ کے کچھ حضرات سے ملاقات ہوئی ۔اختصار کے ساتھ ہم اپنی کتاب ہجرت خیر البشر صلی اللّٰہ علیہ وسلم ص ١٤٥تا ١٤٧سے اسے نقل کرتے ہیں :
ویسے تو طریق الہجرۃ کے مستقل راہبر عبد اللّٰہ بن ارقیط تھے ،مگر راستے میں اللّٰہ تعالیٰ نے کچھ دوسرے حضرات سے بھی راہبری کی خدمت لی۔ان میں ایک نام مسعودبن ھنیدہ رضی اللّٰہ عنہ کا آتا ہے ۔یہ قبیلہ اسلم کے ابوتمیم اوس بن حجر رضی اللّٰہ عنہ کے غلام تھے ۔ یہ اپنا قصہ خود بیان کرتے ہیں :
”میں دوپہر کو ‘الخذوات’ میں تھا ۔میری نظر حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ پر پڑی جو ایک اور شخص کے ساتھ محوِ سفر تھے ۔جب وہ میرے قریب پہنچے تو میں نے اُنہیں سلام کیا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ میرے آقا ابوتمیم کے دوست تھے ۔ انہوں نے مجھ سے کہا، ‘ابو تمیم کے پاس جاؤ،انہیں میرا سلام کہو اور یہ پیغام دو کہ مجھے ایک اونٹ ،زادِراہ اورخفیہ راستہ دکھلانے کے لئے ایک راہبر چاہیے ‘۔۔۔میں نے اپنے آقا تک حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کا پیغام پہنچایا ۔ میرے آقا نے گھر کااونٹ،ایک مشک دودھ اور ایک صاع کھجور مجھے دیتے ہوئے کہا : چونکہ تم ان راستوں سے واقف ہو ،اس لئے تم ہی بطور راہبر ان کے ساتھ چلتے جاؤ جہاں تک انہیں تمہاری ضرورت ہے۔
میں ان حضرات کو لے کر چلا ۔جب ہم رکوبہ پہاڑ پر پہنچے تو نماز کا وقت ہوگیا ۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے نماز پڑھانی شروع فرمائی ۔میں نے جب قرآن پاک کی تلاوت سنی تو اسلام میرے سینے میں داخل ہوگیااور میں نے اسلام قبول کیا۔(پھر بطن رئم سے ہوتے ہوئے) جب ہم لوگ قبا پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں مسلمانوں نے نماز پڑھنے کے لئے ایک جگہ مقرر کررکھی ہے اور حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ کے غلام سالم رضی اللّٰہ عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے قبا میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ پانچ نمازیں ادا کیں ۔پھر میں خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور واپسی کا ارادہ ظاہر کیا ،آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ سے فرمایا : ”انہیں کچھ دے دو”۔۔۔۔۔۔حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ نے مجھے بیس درہم اور پہننے کے لئے کپڑے دئیے۔
میں وہاں سے چل کر اپنے آقا کے پاس پہنچا اور اپنے اسلام لانے کی خبر سنائی،میرے آقا کہنے لگے:’تم نے بہت جلدی کی’ ۔۔۔۔۔۔ میں نے عرض کیا: ‘میرے آقا !میں نے ایسا کلام سنا کہ آج تک میں نے اس سے اچھا کلام نہیں سنا تھا ‘ ۔۔۔۔۔۔بعد میں میرے آقا بھی مسلمان ہوگئے۔”
مسعود رضی اللّٰہ عنہ یہ بھی کہتے تھے کہ بنو سہم میں سب سے پہلے میں مسلمان ہوا ۔البتہ بریدہ بن الحصیب رضی اللّٰہ عنہ مجھ سے بھی پہلے اسلام قبول کر چکے تھے۔۔۔۔۔۔ مسعود رضی اللّٰہ عنہ غزوہ مریسیع کے موقع پرآپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ۔اس وقت اُن کے آقا نے انہیں آزاد کردیا تھا ۔رسول پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے راہ ِہجرت کے اس راہبر کودس اونٹ تحفہ میں دئیے۔
غزوہ احد کے موقع پر جب مشرکین مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لئے نکلے تھے تو اوس بن حجر رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے اِسی غلام مسعود رضی اللّٰہ عنہ کو تیزی سے مشرکین کے قافلہ کی خبر دینے کے لئے مدینہ منورہ بھیجا ۔
”وادی العرج ” حجاز کی مغربی وادیوں میں ایک بڑی وادی ہے ۔ متعدد چھوٹی چھوٹی وادیوں کا بارشی پانی اس میں آگرتا ہے۔قدیم زمانہ میں حجاج کے قافلے اس وادی میں سے ہوتے ہوئے گزرتے تھے ۔ آج کل ‘العرج’ کو وادی النظیم کہا جاتا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی العرج میں بکثرت سفر فرمایا ہے ، اس لئے اس وادی میں سیرت کے بہت سے آثار ونقوش ہیں۔
وادی العرج ،جبل الخذوات

ھجرت کے راستے پرسفر(قسط 15)طریق ھجرت کا مشکل ترین مقام ،ثنیۃ الغائر
سفر ھجرت میں العرج کے ایک اور صحابی سعد العرجی رضی اللّٰہ عنہ کا تذکرہ بھی ملتا ہے ۔ ان کو ‘العرجی’ اس لئے کہاجاتا ہے کہ یہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے العرج میں ملے تھے یا اس لئے کہ ان کی نسبت ہے العرج بن الحارث کی طرف ۔ویسے ان کو اسلمی بھی کہاجاتاہے ۔(معجم الصحابۃ)ان کا واقعہ امام احمد رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مسند احمد میں ذکر کیا ہے ۔فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تک مختصر راستے سے جانا چاہتے تھے ۔ہم نے کہا :رکوبہ کے نیچے سے جو راستہ جاتا ہے وہ زیادہ قریب ہے ،لیکن وہاں قبیلہ اسلم کے دو ڈاکو رہتے ہیں ،جن کو’ مہانان’ کہا جاتا ہے ،اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کو اس راستے سے لے چلیں ۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:((خذ بنا علیھما)) ان ڈاکوؤں والے راستے سے ہمیں لے چلو۔۔۔۔۔۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ان میں سے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا ،”ھذا الیمانی”لو یہ یمانی آگیا۔۔۔۔۔۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی تووہ فورا ًمسلمان ہوگئے ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پوچھا :تمہارانام کیا ہے ؟ کہا : المہانان۔۔۔۔۔۔ (دوگرے پڑے آدمی ) ۔۔۔۔۔۔ فرمایا :((بل أنتما المکرمان))(نہیں، بلکہ تم بہت عزت والے ہو ) پھرآپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پاس مدینہ منورہ آنے کا حکم دیا ۔
ثنیۃ الغائر کا راستہ اگر چہ مشکل ترین راستہ تھا مگر مختصرتھا۔صالح المطیری نے اپنے ایک آرٹیکل”رحلۃ إلی درب الغایر”میں لکھا ہے کہ انہ یختصر علی المسافر یوماً واحداً فی الوصول إلی المدینۃ۔اس راستہ سے مدینہ منورہ تک پہنچنے میں ایک دن کی مسافت کم ہوجاتی تھی ۔مطلب اگر جبل ورقان کے مغربی جانب سے سفر کیاجاتا اورالمسیجید ،الفریش سے مدینہ منورہ کو آتے تو ایک دن زیادہ لگتا ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے طریق الھجرۃ میں اس پہاڑی درّہ کو عبور کیا۔(اگر چہ عبد اللّٰہ القاضی نے اس سے اختلاف کیا ہے)۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے راہبر اونٹنی کی مہار پکڑ کر ثنیۃ الغائر پر چڑھتے ہوئے، حدی خوانی کرتے ہوئے اونٹنی سے کہہ رہے تھے :تعرضی مدراجا وسومی۔تعرض الجوزاء للنجوم
۔۔ھذا ابو القاسم فاستقیمی۔۔اے اونٹنی! دائیں بائیں ہوتے ہوئے(پہاڑ پر سیدھا چڑھنا مشکل ہوتا ہے) مشکل راستوں سے بچتے ہوئے تیزی سے بلندیوں پر چڑھتی جا،جیسے جوزاء ستارہ دائیں بائیں چلتا ہوا مراحل طے کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔تمہارے سوار ابو القاسم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیں،اس لئے ادب واحترام سے قدم قدم اُٹھااُٹھا کے چلتی جا۔(یہ اشعار کس کے ہیں ؟ اس کی تفصیل کے لئے دیکھئے:اس عاجز کی کتاب ھجرت خیر البشر صلی اللّٰہ علیہ وسلم ص ٢٣٥ تا ٢٣٧)
ثنیۃ الغائر اور ثنیۃ العائردونو ں نام آتے ہیں(کبھی ثنیۃ رکوبہ بھی کہہ دیا جاتا ہے)رکوبہ پہاڑ کے دائیں جانب یہ بہت مشکل ترین پہاڑی درّہ ہے۔ یہ سطح سمندر سے ١٠٢٥ میٹر بلندی پر ہے۔پورے عرب میں یہ مشکل ترین راستہ شمار کیا جاتا تھا ۔یہ تنگ راستہ اور درّہ دو[٢] بڑے بڑے پہاڑی سلسلوں کے درمیان پڑتا ہے ۔ ایک طرف جبال قدس(جبال عوف) کا طویل اوراونچاپہاڑی سلسلہ ہے تو دوسری طرف ورقان کے فلک بوس پہاڑ ۔۔۔۔۔۔ قدیم زمانہ میں جب اونٹوں کے ذریعے سفر ہوتا تھا تو قافلے والے یہاں پہنچ کر( اونٹوں سے) سواریوں کو اتارنے پر مجبور ہوجاتے تھے ،یعنی اونٹ سوار سمیت اس پر نہیں چڑھ سکتے تھے ۔کئی اونٹ اس ٹیلہ پر چڑھتے چڑھتے گر جاتے اور مر جاتے۔
علامہ یاقوت رحمہ اللّٰہ معجم البلدان میں فرماتے ہیں :یہ بہت مشقت والا تنگ پہاڑی درہ ہے۔اس پر چڑھنا سخت مشکل ہے ۔اس کو عبور کرنے میں جو دشواری اور مشقت ہے ۔اسے بطور ضرب المثل کے پیش کیا جاتا ہے۔چنانچہ کہا جاتا ہے ”طلب ھذہ المرأۃ کالکر فی رکوبۃ” فلاں عورت کی چاھت تو رکوبہ پہاڑ پر دوسری بار چڑھنے کی طرح ہے ۔۔۔۔۔۔یعنی رکوبہ پہاڑ پر جو ایک بار چڑھ گیا وہی اس کے لئے کافی ہے ،دوسری بار چڑھنے کے لئے وہ ہرگزتیار نہیں ہوگا۔ یہ عورت بھی رکوبہ کی طرح ہے ،جیسے کوئی شخص رکوبہ پہاڑ پر دوبارہ چڑھنے کو تیار نہیں ،اسی طرح کوئی اِس چڑیل عورت کو بھی لینے پر تیار نہیں ۔آج کل آمد ورفت کے لئے یہ راستہ استعمال نہیں ہوتا۔قدیم زمانے میں اس راستے سے قافلے آتے جاتے تھے ۔ اب یہ پہاڑی درّہ کافی ہموار کردیا گیاہے اور گاڑی اسے عبور کرسکتی ہے۔رکوبہ پہاڑ کی نسبت سے ایک مسجد بھی ہے جو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے کہ یہاں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرمائی تھی۔یہ مسجد عشاق اور زائرین کی زیارت گاہ ہے ۔
ثنیۃ الغائر اور مسجد رکوبہ کی تصاویر

٭ہجرت کے راستے پرسفر(قسط 16)وادی ریم اور وادی مبارک سے گزر ہوتا ہے ٭
رکوبہ ،ثنیۃ الغائر کے بعد قافلہ نبوی بطن ریم یا وادی ریم میں پہنچا۔بقول عبداللّٰہ القاضی وادی ریم میں ٢٥ کلومیٹر سفر ہوتا رہا ۔طریق الغائر (ثنیۃ الغائر والا راستہ) وادی ریم میں سے ہوتا جاتا تھا۔وادی قدید میں ام معبد رضی اللّٰہ عنہا کے خیمہ میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کچھ دیر قیام فرمایا تھا اور بکری کا دودھ دھویاتھا ۔ ابو معبد رضی اللّٰہ علیہ گھر پہنچے اور گھر میں دودھ کی برکت دیکھی ۔ام معبد نے پورا قصہ سنایا تو :فخرج فی أثرہم لیسلم علیہم فیقال أدرکہم ببطن ریم فبایع وانصرف:ابو معبد آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلا تاکہ اسلام قبول کرے ۔کہاجاتا ہے کہ وادی ریم میں وہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے آملا،اسلام قبول کیا ،بیعت کی اور واپس ہوگیا۔( سمہودی ،خلاصہ الوفاباخبار دار المصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم)
بطن ریم یا وادی ریم ،مدینہ منورہ سے تقریباً ٦٠ کلومیٹر دور شمال کی طرف واقع ہے۔ یہ’ النقیع’ کی ایک چھوٹی سی وادی ہے ۔مغرب سے آکر النقیع میں گرتی ہے۔آج کل وادی ریم کے نام سے ایک علاقہ بھی ہے۔ مدینہ منورہ روڈ پر اس کی راہنمائی کے لئے بورڈ بھی نصب ہے ۔
وادی ریم کے بعد قافلہ ھجرت الخلائق سے گزرا ۔الخلائق کو آج کل آبار الماشی کہا جاتا ہے ۔پہلے زمانے میں اس راستے سے گزرنے والوں کایہاں پڑاؤ ہوتا تھا ۔کیونکہ مکہ مکرمہ سے آنے والے ثنیۃ الغائر کا مشکل پہاڑی درّہ عبور کرکے آتے تو یہاں سستاتے ،آرام کرتے اور مدینہ منورہ سے جانے والے ثنیۃ الغائر پر چڑھنے کی یہاں سے تیاری کرتے ۔(الخلائق) آبار الماشی سے ہوکر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وادی العقیق میں اُترے ۔بقول عبد اللّٰہ القاضی وادی العقیق میں تقریبا ١٦ کلومیٹر سفر ہوتا رہا ۔
وادی العقیق مدینہ طیبہ کی مبارک وادیوں میں سے ہے۔اس کانام ”وادی مبارک” ہے۔ جہاں مبارک نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قدمین مبارک لگے تو وہ وادی مبارک ہی بنے گی ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سفر حج میں یہاں سے گزرے تو وحی نازل ہوئی کہ اس وادی مبارک میں نماز ادا کریں ۔وادی عقیق کے فضائل کے ہماری کتاب نقوش پائے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک صفحہ ملاحظہ فرمائیں:

ھجرت کے راستے پرسفر(قسط 17)رسول مہاجر صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا انتظار
وادی العقیق کے بعد رسول مہاجرصلی اللّٰہ علیہ وسلم الجثجاثۃ سے گزرے اور بقول عبداللّٰہ القاضی یہاں رات گزاری۔ یہ مقام مکہ مکرمہ سے ٣١٢ کلومیٹر اور منبر نبوی سے ٢٧ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ابن سعد رحمۃ اللّٰہ علیہ نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الجثجاثہ کے بعد الظبی کے راستے پر چلے اور العصبہ پہنچے ۔آگے چل کرسعد اسلمی رضی اللّٰہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ابو تمیم نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس زادِ راہ اور اپنے غلام مسعود کو راہبر بنا کر بھیجا ۔ہم سب روانہ ہوکرالجثجاثہ پہنچے جو مدینہ منورہ سے ایک برد کے فاصلے پر ہے ۔رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس مقام پر نماز پڑھی ۔آج اس جگہ آپ کی مسجد ہے ۔ہم نے گزشتہ دن بکری ذبح کی تھی ،اُسے بھون لیا تھا ۔اس بکری سے جو بچ گیا تھا وہ آج کھایا۔(الطبقات الکبری لابن سعد)
مقام العصبہ میں مہاجرین اورمدینہ منورہ کے انصار ہرروز رسول مہاجر صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے کے لئے پہنچتے ۔انتظار کے ان لمحات کی تفصیل ہم اپنی کتاب ہجرت خیر البشر صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:
سفرہجرت پر روانہ ہوجانے کے بعد یہ خبر ہر طرف گردش کرنے لگی کہ نبی رحمت صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ چھوڑ چکے ہیں ۔۔ جنوبی سمت سے چلنے والی ہوائیں اب مدینہ منورہ پہنچتی ہیں تو خوشبوئے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے معطر ہوکر ۔۔۔۔۔۔طیبہ کے انصار کو یقین ہوگیا کہ مبارک قدم ہماری طرف ہی چلنے کے لئے اُٹھے ہیں ۔ انتظار میں بے تاب اب وہ ایک ایک پل گننے لگے ۔۔۔۔۔۔مدینۃ الرسول[ صلی اللّٰہ علیہ وسلم] میں اب ہر سمت دھوم مچی ہے ۔ہر شخص کی زبان پر محسن انسانیت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی آمد آمد کے تذکرے ہیں ۔چھوٹے بڑے سب تمنائے دیدلئے آنکھیں فرش ِراہ کئے ہوئے ہیں۔ بادِصبا اُڑان بھر بھر کے نویدِسحرسنارہی ہے۔
پو پھوٹتے ہی اہل ایمان بشوق ِدیدار،جوش وخروش کے ساتھ مقام حرۃ العصبہ پر آکر کھڑے ہوجاتے ۔پلک جھپکائے بغیر سامنے افق میں نظریں جمائے رہتے جہاں سے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نمودار ہونے والے تھے ۔جب دھوپ تیز ہوجاتی تو باحسرت ویاس واپس چلے جاتے ۔ایک دن جس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم واپس ہورہے تھے ، ایک یہودی جس نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دیکھ کر پہچان لیا ،بلند آواز سے پکارنے لگا:
‘اے گروہ عرب!جس کا تمہیں انتظار تھا ،وہ آگئے’
اس ایک جملے نے عاشقوں کو خوشی سے بے قابو کردیا ۔اُن کے دل جھوم اٹھے ۔ چہرے فرحت سے کھل اُٹھے ۔ واپس پلٹے اور نگاہیں جما کر راہ تکنے لگے ۔۔۔۔۔۔اچانک غبارچھٹا اور مختصر سا قافلہ نظر آیا ۔تمام بوڑھے، جوان استقبال کے لئے والہانہ دوڑ پڑے ۔ تکبیر کی صداؤں سے پوری آبادی گونج اٹھی ۔لوگوں نے ذوق شوق میں دونوں ساتھیوں کو گھیر لیا۔مدینہ منورہ کی سرزمین نے کبھی کسی ذی روح کا اتنی بے چینی سے انتظار نہیں کیا اور نہ ہی اتنے والہانہ انداز سے کسی اورکا استقبال کیا ۔ (ہجرت خیر البشر صلی اللّٰہ علیہ وسلم ص ١٥٠۔١٥١)
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم العصبہ تک طریق الظبی سے پہنچے ۔یہ وہ راستہ تھا جو ثنیۃ الغائر کے راستے سے آنے والے کو قبا پہنچا دیتا تھا ۔ الشنقیطی کے بقول جبل عیر کے مشرق سے ہوتے ہوئے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم العصبہ پہنچے ۔جبل عیر اس سمت میں حرم مدنی کی آخری حد ہے ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جبل عیر اور جبل ثور کے درمیان حرم مدنی قرار دیا ۔
جبل عیرمدینہ منورہ کا مشہور پہاڑ ہے ،اس سمت میں یہود کی آبادی تھی۔ یہودی اور منافقین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشیں کرنے کے اس علاقے میں جمع ہوتے ۔


