سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما
آئیے! عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے عشق ومحبت سیکھیں۔
عاشق سیرت حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اور عاشق آثار محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق ومحبت سب صحابہ رضی اللہ عنہم میں مشہور تھا ۔امی جان سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ عہد نبوی کی حالت اور کیفیت کا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے زیادہ کوئی پابند نہیں رہا۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یادگاروں کے عاشق تھے ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کی کھوج میں سرگرداں رہتے تھے ۔ان کے اس طرح کے اہتمام کو حضرت نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کے پیچھے شدتِ اہتمام سے پھرتے رہنے کو اگر آپ دیکھ لیتے تو کہتے کہ یہ مجنون ہیں ۔
*۔۔ابن عمر رضی اللہ عنہما سفر پر روانہ ہوتے تو اپنی سواری اسی راستے سے لے جاتے جس راستے سے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا ،کسی نے اس کی وجہ پوچھی:تو بڑی محبت سے بتایا کہ میں اس لئے ایسا کرتا ہوں، ہو سکتا ہے کہ میری سواری کے کچھ قدم اس جگہ پر لگ جائیں جہاں میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے قدم لگے۔
*۔۔حج کے لئے جاتے تو ان مقامات پر ہی ٹھہرتے اور وقوف کرتے جہاں اُنہوں نے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام کرتے دیکھا تھا ۔
*۔۔جس درخت کے نیچے آقاصلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر سستائے ،آرام فرمایاتو ابن عمر رضی اللہ عنہما اس درخت کی جڑ میں آتے جاتے پانی ڈالتے تاکہ یہ درخت زمانہ دراز تک قائم رہے اور ہم یادگارِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لطف اندوز ہوتے رہیں ۔
*۔۔مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے راستے میں جن مقامات پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی ،ابن عمر رضی اللہ عنہما جب بھی وہاں سے گزرتے ضرور اس مقام پر نماز ادا کرتے ۔۔۔۔۔۔حتیٰ کہ جس جگہ پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے بھی ٹھہرے ،ابن عمر رضی اللہ عنہما ضرور وہاں ٹھہر کر قضائے حاجت کرتے ، اگرقضاء حاجت کی ضرورت نہ ہوتی، تب بھی ٹھہر کر یاد سے ضرور دل بہلاتے۔
*۔۔جوتے ایسے پہنتے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین مبارک تھے۔
*۔۔مسجد نبوی سے مسجد قبا کی طرف کبھی کبھی پیدل جاتے اور بتاتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار پیدل جاتے تھے۔
*۔۔صرف عبادات ہی میں نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتفاقی اور بشری عادات کی بھی وہ بھر پور پیروی کرتے تھے ،وضع قطع اور لباس وغیرہ میں بھی اسوہ نبوی کو سامنے رکھتے ،وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا تو بے اختیاررو پڑتے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ان کا سرمایہ حیات اور جان حزین کی تسکین کا باعث تھی۔آپ کی وفات کے بعد ایسے دل شکستہ ہوئے کہ اس کے بعد نہ کوئی مکان بنایا اور نہ باغ لگایا۔سفر سے جب واپس آتے تو روضہ نبوی پر حاضر ہوکر سلام کہتے ۔
٧٤ھ میں وفات پائی ۔
مسجد تنعیم کے قریب ہی ”حی الشہداء”(شہداء محلہ )میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا مقبرہ ہے ، حرم مکی شریف سے مقبرہ آنے کا راستہ کچھ یوں ہے: ”شارع جبل الکعبہ سے ہوتے ہوئے طریق المدینۃ المنورۃپر آئیں ، مسجد عائشہ کی طرف جانے والے راستے پر مسجدعائشہ سے پہلے والے ٹریفک سگنل سے بائیں مڑ جائیں ، تقریباً ٢٠٠ میٹر کی دوری پراندر کی جانب مسجد اسعد بن زرارہ کے سامنے کی طرف ایک چار دیواری کے اندر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی قبر ہے ”۔۔۔۔۔۔
الحمد اللہ اس عاجز کو کئی بارصحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام کہنے کا موقع ملا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی آپ رضی اللہ عنہما کے جذبہ اتباع سنت اور عشق وعقیدت حبیب صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کچھ حصہ عطا فرمادے ۔آمین ثم آمین