غزوہ الغابہ کا مقام، تحقیق ومشاہدہ

غزوہ الغابہ کے مقامات کی زیارت

١٤٤٣ھ کے ہمارے سفرعمرہ اور قیام مدینہ منورہ کے شیڈول میں غزوہ الغابہ کے راستے اور مقامات کی زیارت بھی تھی ۔ ہمارے محترم بھائی حاجی سجاد حسین نے 11 شوال جمعرات کو بتایا کہ ہمارے دوست بھائی عبد اللّٰہ صاحب جدہ سے پہنچ رہے ہیں اور بروز جمعہ ہم زیارات کے لئے جائیں گے ۔آپ بتائیں کہ زیارات کے لئے کہاں جانا ہے ۔ ہم نے غزوہ الغابہ کے راستے اور مقامات کی زیارت کا پروگرام بنایا ۔ چنانچہ بروز جمعہ فجر کی نماز مسجد نبوی الشرف میں ادا کرکے ہم روانہ ہوئے ۔ ہمارا یہ قافلہ پانچ افراد پر مشتمل تھا۔ ہمارے راہبر بھائی عبد اللّٰہ صاحب، مولانا جمعہ خان صاحب زید مجدہم ،بھائی حاجی سجاد حسین صاحب ،بھائی یسین صاحب اوریہ عاجز وسیاہ کار ۔ جبل اُحد سے ہوتے ہوئے ہم الغابہ پہنچے ۔ ”الغابہ” مدینہ منورہ سے شمال کی طر ف مسجد نبوی سے تقريباً ١٢کلومیٹر کے فاصلہ پراُحد پہاڑ کی مغربی جانب ہے ۔ یہاں گھنے درخت ہیں ۔ چونکہ تمام وادیوں کا پانی مدینہ منورہ سے گزر کر یہاں جمع ہوجاتا ہے ۔اب وہاں ایک ڈیم بنا دیا گيا ہے ، تاکہ اس پانی سے استفادہ کیا جاسکے۔یہ ڈیم سد الغابہ کہلاتا ہے ۔

آج کل الغابہ کو ” الخُلیل” کہاجاتاہے۔ کافی آباد علاقہ ہے ۔اُحد پہاڑ سے آگے لب ِسڑک ”الخلیل” کا بورڈ لگاکر اس علاقے کی نشاندہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس علاقہ میں کھجوروں کے کافی باغات اورتفریح گاہیں ہیں۔ان تفريح گاہوں میں بچوں کے جھولے وغيرہ ہیں۔اہل ِمدینہ سير وتفریح کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ یہاں آتے رہتے ہیں ۔ یہ مقام اس لحاظ سے مقدس وبابرکت  ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا منبر اسی غابہ جنگل کی لکڑی سے بنایا گيا تھا ۔

اس غابہ نامی چراگاہ میں رسول مجاہد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں چرتی تھیں ۔ یہ ٦ھ کی بات کہ عُیینہ بن حصن فرازی نے بنو فرازہ کے چالیس آدمیوں کے ہمراہ اس چراگاہ پر حملہ کیا۔اُونٹنيوں کی حفاظت پر ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ کے صاحب زادے متعين تھے ۔بنو فرازہ نے اُن کو شہید کردیا ۔ابو ذررضی اللّٰہ عنہ کی بیوی کو پکڑلیااوراُونٹنیوں کو بھگا کر لے گئے۔حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللّٰہ عنہ نے اطلاع پائی تو ثنیۃ الوداع ٹیلہ سے ”یا صباحاہ” کی تين آوازیں لگاکر خطرہ کا الارم بجا دیا۔ آوازپورے مدینہ میں گونجی۔سلمہ رضی اللّٰہ عنہ آواز لگانے کے بعداُن کے تعاقب میں روانہ ہوئے۔یہ بڑے تير انداز تھے۔تاک تاک کر تيروں سے اُن کو نشانہ بنایا ۔ کافی دیر تک دشمن کا تعاقب کرتے رہے ۔نبی مجاہد صلی اللّٰہ علیہ وسلم پانچ سو یا سات سو صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم کی جماعت کے ساتھ ان کے پیچھے پہنچے ۔بنو فرازہ کے مشرکین نے شکست کھائی اور بھاگ گئے۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ ذو قرد میں جا ٹھہرے۔
ذو قرد جاتے ہوئے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا گزرایک کنویں پرہوا ۔اُس کانام پوچھا : لوگوں نے بتايا ”بيسان” ۔جس کے معنی ہیں ”ملح” یعنی نمکین ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس کانام تبدیل کرکے” نعمان ” یعنی طيب، پاکیزہ رکھا۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی برکت سے اللّٰہ تعالیٰ نے اس کاپانی بھی طيب وپاکیزہ کردیا ۔ طلحہ بن عبیداللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ نے یہ کنواں خرید کر صدقہ کردیا ۔رسول مکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: طلحہ! تم تو بڑے سخی ہو ۔اسی وجہ سے طلحہ رضی اللّٰہ عنہ كو فیاض کہا جاتا ہے ۔
ڈاکٹرنزار محمود کہتے ہیں کہ مفرق ابی الدود کے پاس جس کنویں کا محل وقوع ہے ،وہ شاید وہی کنواں ہے ،جس کا نام حدیث میں ”بئربیسان” آیا ہے ۔ہم ڈاکٹر نزار کی لوکیشن کے مطابق اس کنویں کے محل وقوع پر پہنچے ۔یہ جگہ آج کل مخیمات فرح کہلاتی ہے ۔یہ ایک پکنک پؤانٹ ہے ۔ لوگ یہاں تفریح کے لئے آتے ہیں ۔اس وقت اس مقام پر کوئی کنواں تو موجود نہیں ہے ،البتہ یہاں ایک ٹینکی ہے ،جس میں زمینی بور سے پانی نکال کر ڈالاجاتا ہے ،جس کا پانی تھوڑا نمکین ہے ۔ البتہ عظیم عرب محقق عبد اللّٰہ شائع کی تحقیق یہ ہے اس کنویں کے مقام کا نام مبرک القصوی ناقۃ غدیر وغار ہے۔ عام طور پر اسے بئر مردومہ کے نام سے جانا جاتا ہے جو اب سیمنٹ کیا جاچکا ہے۔ ان کے نزدیک یہ مقام غزوہ ذی قرد یا غزوہ ذو قرد کا سنگ میل اور راستہ ہے۔

ڈاکٹر نزار محمود کی ذکر کردہ لوکیشن کے مطابق ذو قرد کا محل وقوع منطقہ الغابہ سے شروع ہوا ۔یہ تعاقب مفرق ابو الدود سے ہوتا ہوا منتزہ البیضاء کے پہاڑوں تک رہا ۔منتزہ البیضاء سے پہلے دائیں طرف البیضاء کے پہاڑوں میں خیبر کی طرف راستہ نکلتا ہے اور یہی عیینہ بن حصن کا راستہ تھا۔ باقی ”ذو قرد ”مفرق ابی الدود کے بعد بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر منتزہ البیضاء کے نواح میں ایک پہاڑہے اور یہی راجح ہے ۔کچھ حضرات کے بقول منتزہ البیضاء کے مشرق میں یعنی مفرق ابی الدود کے بعد شمال مشرق میں یہ مقام ہے ۔ ہم نے دکتورنزار محمود کی تحقیق کے مطابق منتزہ البیضاء تک کا سفر کیا۔منتزہ البیضاء یعنی وادی جن یہاں کے لوگوں کی تفریح گاہ ہے ۔عید وغیرہ کے ایام میں یہاں خوب میلہ لگا رہتاہے ۔

مدینہ منورہ کے تاریخی مقامات کے محقق عبداللّٰہ بن مصطفی الشنقیطی نے قدیم سیرت نگاروں کے مختلف اقوال کی روشنی میں ذو قرد کا محل وقوع یہ بتایا ہے کہ مدینہ منورہ سے طریق نجدی عراقی پر تقریباً ٣٥ کلومیٹر کے فاصلے پر راستہ سے بائیں طرف گھاٹی ہے جن میں مہراس بھی پائے جاتے ہیں ،یعنی پہاڑوں اور گھاٹیوں میں پتھروں کے درمیان ایسے گڑھے بنے ہوئے ہیں جن میں بارش کاپانی جمع ہوجاتا ہے ۔یہاں پتھروں پر پرانے زمانے کے اسلامی نقوش اور تحریرات بھی موجود ہیں ۔مسافروں اور راہ گیروں کے پڑاؤ کے اثرات بھی یہاں پائے جاتے ہیں ۔ان کے خیال میں یہی گھاٹی ”ذو قرد” ہے۔ہمارے دوست بھائی آفتاب فہیم صاحب (ریاض سعودی عرب) نے اس مقام کا سفر کیا ہے اور اس مقام کی تصاویر ہمیں بھیجی ہیں ۔

بہرحال ہم نے الغابہ میں غزوۃ الغابہ کے واقعہ کا مذاکرہ کیا۔ یہاں کے مقدس مقامات کی زیارت کی ۔یہاں کی نورانیت سے لطف حاصل کیا۔ واپس مدینہ منورہ کو روانہ ہوئے ۔ بھائی عبد اللّٰہ صاحب سے ہم نے درخواست کی ہمیں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے راستے سے واپس لے جائیں ۔اس راستے سے آنے کا یہ فائدہ ہوا کہ ہم نے وادی العقیق المبارک ،جسے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے وادی مبارک فرمایا ،کی زیارت بھی کی ۔کافی دیر تک ہم وادی مبارک کے ساتھ ساتھ سفر کرتے رہے ۔جمعہ کی نماز کا وقت قریب ہورہا تھا ۔لہٰذا ہم نے اپنا سفر سمیٹنا شرع کیا ۔مسجد قبلتین کے علاقے سے ہوتے ہوئے اور جبل احد کی زیارت کرتے ہوئے واپس مسجد نبوی شریف پہنچے ۔