مدینہ منورہ کے مقامات مقدسہ کی زیارت
یہ شوال کی 6 تاریخ تھی ،ہمیں مدینہ منورہ پہنچے ہوئے تیسرا دن تھا۔ ہمارا معمول ہے کہ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران مختلف مقامات سیرت کی زیارت کرتے ہیں اوراپنے رفقاء سفرکو بھی اس کی ترغیب دے کر اپنے ساتھ مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے لے جاتے ہیں۔ اس سفر میں ہم تین ساتھی تھے: مولانا جمعہ خان صاحب بلوچستان ، بھائی حاجی سجاد حسین صاحب اور یہ عاجز۔ یہ ہفتہ کا دن تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن مسجد قبا تشریف لے جاتے اوراشراق کے نوافل مسجد قبا میں ادا فرماتے۔ چنانچہ اس سنت پر عمل کرنے کے لئے ہم بھی فجر کی نمازمسجد نبوی میں پڑھنے کے بعد مسجد قبا پہنچے اور اشراق کے نوافل ادا کئے۔ ہفتہ کے دن مدینہ منورہ کے بہت سارے باشندگان کا یہی معمول ہے کہ وہ اشراق کے نوافل کے لئے مسجد قبا آتے ہیں۔اس لئے آج باقی دنوں کی بنسبت زیادہ ہجوم تھا۔

نوافل سے فارغ ہونے کے بعدہم بستان المستظل پہنچے۔ یہ باغ اس نسبت سے مشہور ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے موقع پرمدینہ منورہ پہنچے تو اس مقام پرانصار مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف فرما ہوئے اور جب دھوپ ہونے لگی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چادر تان کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کیا، اس سے یہ مقام مقام تظلیل(سایہ والا مقام)سے مشہور ہوا ۔اس مقام پر آج کل ایک مصلیٰ ،نماز پڑھنے کی جگہ بنائی گئی ہے اور قدیم ثقافت کے انداز میں ایک جھونپڑا نما سائبان بنایا گیا ہے ۔ جس باغ میں یہ جگہ ہے وہ بستان المستظل سے مشہور ہے۔ قریب میں ایک کنواں ہے جس کو بئر عذق کہا جاتا ہے۔یہاں کے لوگوں میں مشہور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کنویں کاپانی نوش فرمایا۔ چنانچہ ہم نے بھی اس مقام میں اس مصلیٰ پر نماز پڑھی اور اس پانی سے برکت حاصل کی۔

اس کے بعد ہم مسجد بنو انیف پہنچے۔ جوبستان المستظل سے چند میٹر آگے لب سڑک موجود ہے۔اس علاقہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابی طلحہ بن برا ء رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے تشريف لائے اور اس مسجد والی جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازیں ادا کیں ۔قبیلہ بنو اُنیف نے پھراس مقام پر مسجد بنا لی۔اس مسجد میں الحمد للہ متعدد بار حاضری ہوئی۔ یہ مسجد آثار قدیمہ کی شکل میں موجودتھی ۔ہم نے اپنی کتاب نقوش پائے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس مسجد کے بارے میں لکھا تھا۔
”یہ مسجد کافی عرصہ تک آباد رہی۔نمازیں ہوتی رہیں ۔اب مسجد آثار قدیمہ کی شکل میں موجود ہے ،جس کی کوئی چھت نہیں ہے ۔ديواریں قدیم پتھروں سے بنی ہوئی ہیں۔ کوئی دروازہ ہے نہ کھڑکی ۔مسجد کی شکستہ عمارت دیکھ کے دل دُکھی ہوتا ہے ۔ کھنڈرات کی شکل میں ویران یہ مسجدکسی اللہ والے کی منتظر ہے، جو اللہ کے اس گھر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس یادگار کو خوبصورت انداز سے تعمیر کرائے ۔ہم نے مسجد میں داخل ہوکر کھلی زمین پر نماز شکرانہ ادا کی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمین پر نماز پڑھنے کی سعادت سے نوازا ،جہاں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک لگے ۔( نقوش پائے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے ہمارا دردِ دل سن لیا۔اب کی بار جب حاضری ہوئی تو دیکھا کہ یہ مسجد جدید تعمیر کے ساتھ پرانے طرز کو مد نظر رکھتے ہوئے، پتھروں کی دیوار کے ساتھ خوبصورت وپرکشش انداز میں تعمیر کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ تعمیر کرنے والوں کو بہت جزائے خیر عطا فرمائے آمین ۔عشاق یہاں پہنچ کر نماز ادا کرتے ہیں۔ہمارے ساتھیوں نے بھی یہاں نماز نفل ادا کی ۔

یہ محلہ”حی العصبہ” کہلاتا ہے ۔ جب صحابہ رضی اللہ عنہم ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تھے تو بہت سارے مہاجرین صحابہ کا قیام اسی عصبہ کے علاقے میں تھا ۔آج بھی یہ محلہ”حی العصبہ”سے مشہور ہے۔ہمارے بہت ہی محترم دوست مولانا محمد ابراہیم صاحب دامت برکاتہم جو کئی سال سے مدینہ منورہ میں مقیم ہیں۔انہیں مدینہ منورہ سے بڑی محبت اور یہاں کی سرزمین سے عاشقانہ لگاؤ ہے۔سخاوت اور مہمانان حرمین شریفین سے محبت اور ان کی مہمان نوازی ، ان کاامتیاز ہے۔ ان کا اصرار ہوتا ہے کہ آپ جب بھی مسجد قبا آئیں تو ناشتہ ہمارے ہاں کریں ۔آخر ایک دن ان کے اصرار پر ہم ان کے گھر گئے۔ان کی سخاوت وکرم نوازی نے ناشتہ کو پرتکلف دعوت میں تبدیل کردیا ۔

مسجدقبا کے قریب کی زیارات سے فارغ ہوکر اب ہم نے جبل احد کی زیارت کے لئے جانا تھا، چنانچہ گاڑی میں بیٹھ کر ہم جبل احد پہنچے ۔یہ شوال کا مہینہ تھااورہفتہ کا دن، اسی مہینے اور اسی دن میں جبل احد کے دامن میں معرکہ احد ہوا تھا۔معرکہ احد کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ہم یہاں پہنچے تو صحابہ رضی اللہ عنہ کی قربانیاں ،اُن کی شہادتیں ،رسول مجاہد صلی اللہ علیہ و سلم کے زخم ،ان سب چیزوں کے تصور نے ہم پر سکتہ طاری کردیا ۔ مجھے ”غزوات ”کے موضوع پر اپنی کتاب کاابتدائیہ لکھنا تھا، چنانچہ مولانا جمعہ خان زیدمجدہم اور بھائی حاجی سجاد حسین صاحب حفظہ اللہ سے اجازت لے کر میں جبل الرماۃ پہنچا اور جبل الرماۃ کی چٹانوں پر بیٹھ کر اپنی کتاب کا مقدمہ لکھا ،یہ کتاب عنقریب ان شاء اللہ تصاویر اور نقشوں کے ساتھ شائع ہو گی۔میرے رفقاء مسجد سید الشہداء میں بیٹھ کر میرا انتظار کرتے رہے۔سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے مقام شہادت کے قریب جبل الرماۃ کی چٹانوں پرسے اپنی تحریر سے فارغ ہوکر میں مسجد سید الشہداء پہنچا۔ پھرہم سب احباب شہدائے احد کی خدمت میں سلام عقیدت پیش کرنے مقبرہ شہداء پہنچے ۔ کافی دیر تک شہدائے احد کے مقبرہ کی زیارت کرتے رہے۔دعا ؤں اور زیارت سے فارغ ہوکر اپنی رہائش گاہ پر پہنچے۔معرکہ احد کی تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب نقوش پائے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ۔نیز ہماری نئی کتاب کی تکمیل اور اشاعت کے لئے آپ تمام احباب سے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی اشاعت کے تمام وسائل کا انتظام فرمادیں ،آمین یارب العالمین ۔

گزارش
نقوش سیرت ڈاٹ کام ویب سائٹ بھتر سے بھتر بنانے کے لئے کسی بھی قسم کا مشورہ اوراطلاع دینے کے لیے کلک کیجیے
آپ کی رائے
نقوش سیرت ویب سائٹ آپ کوکیسی لگی۔ ضرور اپنی رائے اور تبصرہ دیں۔
رائے اور تبصرہ کے لئے یہاں کلک کریں۔
رابطہ و معاونت
نقوش سیرت ویب سائٹ اور کتب سیرت کی اشاعت کے سلسلے میں آپ مالی تعاون بھی کرسکتے ھیں۔
تفصیل کے لئے یہاں کلک کریں۔
Social Media
- abuumama315@gmail.com
 - +92-333-3424401
 - +92-333-3424401
 
